61

کرم میں شیعہ سنی فسادات کا سلسلہ جاری

پشاور + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے کے بعد ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی کشیدگی پر تاحال قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور پولیس کا کہنا ہے کہ اس دوران مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد اب 100 سے بڑھ گئی ہے۔

صوبائی حکومت کی جانب سے سُنی اور شیعہ قبائل کے درمیان لاشوں اور قیدیوں کی واپسی کی غرض سے سیزفائر کے اعلان کے باوجود مخالف گروہوں میں مختلف مقامات پر جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر سیف نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ فریقین نے لاشوں اور قیدیوں کو واپس کرنے کے علاوہ سات روزہ سیز فائر پر اتفاق کیا ہے تاہم مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ مختلف قبائل کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ تھم نہیں سکا ہے۔

طبی حکام کا کہنا ہے کہ فائرنگ کے ان واقعات میں مزید دو افراد ہلاک جبکہ چھ زخمی ہوئے ہیں جبکہ گذشتہ جمعرات کی دوپہر لگ بھگ 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہونے والے حملے کا ایک اور زخمی بھی دم توڑ گیا ہے جس سے اس واقعے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 52 ہو گئی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ان ہلاکتوں کے بعد ایک ہفتے میں حملوں اور فرقہ وارانہ تشدد میں مرنے والوں کی تعداد 102 ہو گئی ہے جبکہ 138 افراد زخمی ہیں۔

ضلع کرم میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بدستور معطل ہے جبکہ علاقے کی مرکزی شاہراہیں اور تعلیمی ادارے بھی بند ہیں۔

ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کا کہنا ہے کہ قیامِ امن کے لیے مختلف اقدامات جاری ہیں اور گرینڈ امن جرگہ مذاکرات کے لیے علاقے میں بھیجا جا رہا ہے۔

اس سے قبل سیزفائر کے اعلان کے باوجود اتوار کی شب علی زئی اور بگن کے علاقوں میں جھڑپوں کی اطلاعات ملی تھی جبکہ صدہ ہسپتال میں ایک ہلاک اور تین زخمی لائے گئے تھے۔

ایک پولیس اہلکار کے مطابق علاقے میں حالات مکمل معمول پر نہیں ہیں اور ایک بے یقینی کی صورتحال برقرار ہے۔

بگن کے مقامی شہری شاہین گل نے بی بی سی کو بتایا کہ فی الحال علاقے میں سخت خوف پایا جاتا ہے اور بگن کا بازار لگ بھگ مکمل تباہ ہو گیا ہے۔ صدہ کے ہسپتال میں تعینات ڈاکٹر رحیم کے مطابق اتوار کی شب ان کے ہسپتال میں مزید لاش اور تین زخمی لائے گئے ہیں جبکہ مختلف علاقوں سے پیر کی صبح بھی فائرنگ کی اطلاعات موصول ہوتی رہی ہیں۔ جب اُن سے جب پوچھا کہ علی زئی اور دیگر قریبی بنیادی صحت مراکز میں کیا صورتحال ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ علاقے میں موبائل فون سروس مکمل بحال نہ ہونے کی وجہ سے رابطے نہیں ہو پا رہے ہیں۔

دوسری جانب ایک حکومتی وفد گزشتہ دو روز سے کرم میں موجود دونوں مخالف دھڑوں کے قائدین سے تفصیلی ملاقاتوں میں مصروف ہے جس کے نتیجے میں ایک گرینڈ جرگہ منعقد کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔

کرم سے تعلق رکھنے والے سابق رکن قومی اسمبلی ساجد طوری نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ خود اس وفد میں شامل تھے جس میں صوبائی وزیر آفتاب عالم، صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف ، چیف سیکریٹری خیبرپختونخوا اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت دیگر انتظامی افسران شامل تھے۔

انھوں نے بتایا کہ ملاقاتوں کے دوران دونوں جانب سے گلے شکوے کیے گئے لیکن وفد نے جنگ بندی کا مطالبہ کیا جسے اہل تشیع نے قبول کیا اور اس کے بعد وفد اہل سنت کے عمائدین کے پاس گئے اور وہاں بھی گلے شکوے تھے لیکن وہ بھی جنگ بندی پر راضی ہو گئے ہیں۔

جب ان سے کل رات ہونے والی فائرنگ اور جھڑپوں کی اطلاعات سے متعلق پوچھا گیا تو اُن کا کہنا تھا کہ جس شدت سے پہلے فائرنگ اور بھاری اسلحہ استعمال ہو رہا تھا، اب ویسی صورتحال نہیں ہے۔ ’چھوٹے ہتھیاروں سے ضرور فائرنگ ہوئی ہو گی لیکن کسی بڑے نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔‘

ساجد طوری نے بتایا کہ فریقین یرغمال افراد اور لاشوں کو لواحقین کے حوالے کرنے پر راضی ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق مجموعی طور پر 18 افراد یرغمال ہیں یعنی ایک جانب سے 12 اور دوسری جانب کے چھ افراد۔ انھوں نے کہا کہ یرغمال بنائے گئے افراد اور لاشوں کی منتقلی کے بعد ایک گرینڈ جرگہ منعقد کیا جائے گا جس میں مقامی عمائدین کے علاوہ کوہاٹ ڈویژن کا گرینڈ جرگہ بھی شریک ہو گا تاکہ علاقے میں مکمل امن قائم کیا جا سکے۔

خیال رہے کہ 21 نومبر کی دوپہر لوئر کرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں لگ بھگ 200 مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہوئے حملے میں خواتین اور بچوں سمیت 44 افراد کی ہلاکت کے بعد ضلع کرم میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اور متحارب قبائل کے درمیان فرقہ وارانہ بنیادوں پر ہونے والی جھڑپوں کا سلسلہ چھٹے روز بھی جاری ہے۔

حکام کے مطابق ضلع کرم میں 21 نومبر کو پیش آئے واقعے کے بعد سے ہونے والی پُرتشدد جھڑپوں اور حملوں کے نتیجے میں اب تک کم از کم 76 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔

بگن اور اوچت میں مسافر گاڑیوں پر ہوئے حملے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے افراد میں سے بیشتر کا تعلق پاڑہ چنار اور قریبی علاقوں میں آباد اہلِ تشیع برادری سے تھا۔

یاد رہے کہ اس واقعے کے ردعمل میں جمعہ کی شب چند مظاہرین نے سُنی اکثریتی علاقے بگن (جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا) میں دھاوا بول کر دکانوں اور مکانوں کو نذر آتش کیا جس کے نتیجے میں حکام کے مطابق مزید کم از کم 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ مسلح لشکر کی جانب سے بگن میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور حملوں میں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا تھا جس کے بعد بگن اور دیگر نزدیکی علاقوں سے مقامی آبادی نے نقل مکانی کی۔

ضلع کرم کی تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ مقامی پولیس کے مطابق آج (اتوار) لوئر کرم کے شیعہ اکثریتی گاؤں علی زئی کے قریب شدید جھڑپیں جاری رہیں۔

پولیس اہلکار کے مطابق اتوار کو کشیدگی کا آغاز اُس وقت ہوا تھا جب مندروی کے علاقے، جو بگن سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، سے ایک بڑے لشکر نے اچانک علی زئی گاؤں کی طرف پیش قدمی کا آغاز کیا تھا۔

مقامی پولیس نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مندروی سے روانہ ہونے والے اِس لشکر نے پہلے علی زئی کی داخلی حدود میں موجود دو گاؤں ’جیلامئی‘ اور ’چار دیوار‘ پر حملہ کیا جہاں ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے ہونے والی شدید لڑائی کے بعد مسلح لشکر نے ان دونوں گاؤں کا محاصرہ کرلیا ہے۔

مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ اب یہ مسلح لشکر تیزی سے علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے جب کہ اس لشکر میں موجود افراد کے پاس بھاری ہتھیار بھی موجود ہیں جبکہ علی زئی کے سرحدی علاقوں میں موجود مورچوں سے اس لشکر پر شدید فائرنگ کی جا رہی ہے۔

ڈپٹی کمشنر کرم کے دفتر کے مطابق اِس وقت علی زئی کے قریب کے علاقوں سے شدید جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ تاہم نہ تو پولیس اور نہ ہی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان تازہ جھڑپوں میں ہونے والے جانی نقصان کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

علی زئی کے مقامی رہائشی اور مشر سید حسین کے مطابق مندروری سے چلنے والے مسلح لشکر نے علی زئی کے دو گاؤں پر اتوار کی صبح کے اوقات میں حملہ کیا تھا جہاں پر مقامی لوگوں کے ساتھ اُن کا مقابلہ ہوا ہے۔

سید حسین کے مطابق اب یہ مسلح لشکر علی زئی کی طرف بڑھ رہا ہے جسے مورچوں میں موجود مسلح افراد کی جانب سے روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سید حسین کے مطابق اگر یہ لشکر اِسی طرح بڑھتا رہا تو ممکنہ طور پر علی زئی پہنچنے پر بہت زیادہ خون خرابہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب ہنگو پولیس نے تصدیق کی ہے مشتعل مظاہرین نے ہنگو سے کوہاٹ آنے والی روڈ کو آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ ہنگو پولیس کے مطابق گاڑیاں اس وقت متبادل روڈ کو استعمال کر رہی ہیں جہاں پر ٹریفک شدید متاثر ہے۔

پولیس کے مطابق اس سڑک کو ہنگو پھاٹک کے مقام پر بند کیا گیا ہے جہاں مظاہرین کی بڑی تعداد موجود ہے۔ مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ کرم میں فوجی آپریشن کرکے تمام کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔

دوسری جانب خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ متحارب قبائل کے درمیان جنگ بندی کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ صوبائی حکومت کے مشیرِ اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے سنیچر کو بتایا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی کی ہدایت پر ایک اعلیٰ سطحی حکومتی وفد قبائلی عمائدین اور مشران سے جرگہ کر رہا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ کشیدگی کے خاتمے کے لیے تمام معاملات خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ بیرسٹر سیف نے بتایا تھا کہ ابتدائی طور پر حکومتی وفد کی اہل تشیع کے رہنماؤں سے مفصل ملاقاتیں ہوئیں جس کے دوران مثبت گفتگو ہوئی ہے اور اب اگلے مرحلے میں اہل سنت کے رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کی جا رہی ہیں۔

صوبائی حکومت کے ترجمان نے مزید کہا کہ حکومت کی اولین ترجیح دونوں فریقین کے درمیان سیز فائر کروا کر پائیدار امن قائم کرنا ہے۔

کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کو بتایا تھا کہ کرم میں امن و امان قائم کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے جبکہ قبائلی رہنماؤں سے مدد حاصل کی جا رہی ہیں۔

بگن بازار نذرِ آتش: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

مسافر گاڑیوں کے قافلے پر ہوئے حملے میں ہلاک ہونے والے 44 افراد کی نماز جنازہ جمعہ کی نماز کے بعد آبائی علاقوں میں ادا کی گئی تھی جس کے بعد سنی اکثریتی علاقے بگن کے بازار میں توڑ پھوڑ کی گئی اور دکانوں سمیت املاک کو آگ لگا دی گئی جس سے علاقے میں بھاری جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔

کرم پولیس کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ہلاک شدگان کی تدفین کے بعد جمعے کی شام شیعہ اکثریتی علاقے علی زئی سے طوری قبائل کی جانب سے لشکر کشی کا آغاز ہوا تھا جو بگن پہنچا۔

ڈپٹی کمشنر جاوید محسود نے بی بی سی کی فرحت جاوید کو بتایا تھا کہ بگن میں لشکر کی جانب سے متعدد مکانات اور بگن بازار میں کئی دکانوں اور پیٹرول پمپ کو بھی آگ لگائی گئی تھی۔

مقامی صحافیوں کے مطابق ضلع کرم کے لوئر پاڑہ چنار کے علاقے میں اس وقت کئی مقامات پر موبائل انٹرنیٹ میں خلل ہے جبکہ کئی مقامات پر موبائل نیٹ ورک بھی صحیح سے کام نہیں کر رہا ہے جس کے باعث لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

کرم پولیس کے ایک سینیئر افسر نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سات بجے کے قریب ایک مشتعل گروہ بگن بازار میں داخل ہوا اور اس نے پوری مارکیٹ کی دکانوں اور گھروں پر پیٹرول چھڑک کر آگ لگانا شروع کر دی۔

ان کے مطابق بگن بازار میں مقامی قبیلے اور طوری لشکر کے مابین شدید لڑائی ہوئی۔

بگن کے رہائشی اور مقامی تاجر نصیب جان کا گھر بگن بازار کے قریب واقع ہے۔ انھیں 22 نومبر کی شب اطلاع ملی تھی کہ بگن کے قریب ایک گاؤں میں املاک کو نذرِ آتش کیا گیا ہے۔ اس ڈر سے لوگوں نے بازار میں اپنی دکانیں بند کیں اور گھروں کو چلے گئے۔

نصیب جان سمیت دیگر تاجروں کو ایسا بالکل نہیں لگتا تھا کہ پُرتشدد ہجوم دکانوں اور گھروں کو بھی نشانہ بنائے گا۔ وہ اپنے گھر میں موجود تھے جب انھوں نے ’نعروں کی آوازیں سنیں۔ سب سے پہلے پیڑول پمپ کو آگ لگائی گئی۔‘

ان کے مطابق یہ ہجوم ’اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے‘ اور املاک کو نذرِ آتش کرتے ہوئے بازار کی طرف بڑھ رہا تھا۔

نصیب جان کہتے ہیں کہ اس ’لشکر‘ نے شام سات بجے کے قریب ’بگن بازار پر قبضہ کر لیا تھا۔۔۔ ان کو کسی بھی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ بازار کے قریب واقع آبادیوں اور بستیوں سے بھی لوگوں نے انخلا شروع کر دیا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ بازار میں موجود دکانوں اور آس پاس گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔ ’بگن بازار میں تقریباً دو سو سے زیادہ دکانیں ہیں، ان سب کو جلا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی گھروں کو بھی جلایا گیا ہے۔‘

نصیب جان نے بتایا کہ ’رات 10 بجے سے 12 بجے تک شیعہ اور سنی مسلح گروہوں کے بیچ جھڑپیں ہوئیں۔ مگر رات گئے تک دکانوں میں موجود قیمتی سامان جل کر راکھ ہو چکا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ بگن بازار میں کئی افراد کو زخمی حالت میں دیکھا جاسکتا تھا اور ادھر کئی لاشیں بھی پڑی ہوئی تھیں۔

بگن کے مشر اور اہل سنت کے رہنما مشر کریم اورکزئی کا کہنا تھا کہ بگن بازار پر حملہ افسوسناک ہے، حالانکہ یہ علاقہ ہمیشہ سے خود کو فرقہ وارانہ تنازع سے باہر رکھتا ہے۔

کریم اورکزئی کا کہنا تھا کہ اس حملے میں 200 سے زیادہ دکانوں اور کئی گھروں کو جلایا گیا ہے تاہم ’جنگ اب بھی جاری ہے اور دونوں اطراف سے فائرنگ ہو رہی ہے۔‘

جمعرات کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملہ: عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

اس سے قبل جمعرات کو لوئر کرم کے علاقے مندروی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نگرانی میں پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی 200 گاڑیوں کے قافلے پر متعدد مقامات پر حملہ کیا گیا تھا۔

یہ قافلہ اس سڑک پر سفر کر رہا تھا جسے اکتوبر میں مسافر گاڑیوں پر حملے کے واقعے کے بعد بند کر دیا گیا تھا اور کئی ہفتوں بعد حال ہی میں آمدورفت کے لیے کھولا گیا تھا۔

اس حملے کے بعد شیعہ تنظیم مجلس وحدتِ مسلمین نے ملک بھر میں تین روزہ سوگ کا اعلان کیا تھا جبکہ جمعے کو کراچی میں احتجاجی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے جماعت کے رہنماؤں نے ضلع کُرم سمیت خیبر پختونخوا بھر میں آپریشن کا مطالبہ کیا تھا۔

فائرنگ کا نشانہ بننے والے قافلے کے مسافروں میں شامل پیر حسین شاہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جب قافلہ پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہوا تو ’اندھا دھند فائرنگ شروع ہو گئی جس میں بھاری ہتھیاروں کا بھی استعمال کیا جا رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے آج وہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے۔‘

سعیدہ بانو پشاور میں ملازمت کرتی ہیں۔ وہ بھی اس قافلے میں شامل تھیں۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب پشاور سے پاڑہ چنار کی حدود میں داخل ہو رہے تھے تو اس وقت میں نے اپنی گاڑی سے اُتر کر سکیورٹی فورسز سے کہا کہ ’قافلہ بڑا ہے اور سکیورٹی اہلکار کم ہیں مگر مجھے کہا گیا کہ گاڑی میں بیٹھ جاؤ سب ٹھیک ہو گا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میں قافلے کے درمیان میں تھی۔ پہلے مجھے ایسے لگا کہ گاڑیوں کے قافلے کے پیچھے سے فائرنگ کا آغاز ہوا ہے۔ اس کے بعد مجھے لگا کہ میرے سامنے بھی فائرنگ ہو رہی ہے۔ اس موقع پر میں نے اپنے بچوں کو گاڑی کی سیٹ کے نیچے کر دیا تھا۔ کئی منٹ تک ہر طرف سے فائرنگ ہوتی رہی تھی۔‘

سعیدہ بانو کا کہنا تھا کہ ’مجھے لگا کہ آج میں بچوں سمیت ماری جاؤں گی۔ مگر قافلے کے درمیان میں گاڑیوں کو زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ وہ گاڑیاں جو شروع اور آخر میں تھیں وہ براہ راست ٹارگٹ تھیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’جب فائرنگ ختم ہوئی تو میں نے دیکھا کہ ہر طرف زخمی اور لاشیں پڑی ہوئی تھیں۔ کوئی چیخ رہا تھا اور کوئی ہلاک ہو چکا ہے۔ اس موقع پر کچھ لوگوں نے زخمیوں کی مدد کرنے کی بھی کوشش کی تھی۔‘

کرم حملے پر تحقیقات جاری

خیبرپختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ضلع کرم میں مسافر گاڑیوں پر حملے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے بتایا تھا کہ پہلے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا گیا اور پھر مسافر قافلے کو دونوں اطراف سے نشانہ بنایا گیا۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ قافلے میں 200 کے قریب گاڑیاں شامل تھیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور واقعے کی براہ راست نگرانی کر رہے ہیں اور ضلعی انتظامیہ، ڈی پی او، آر پی او سمیت تمام متعلقہ افسران جائے وقوعہ پر موجود ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تفتیش جاری ہے اور ملوث عناصر کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے۔

ادھر وفاقی وزیرداخلہ محسن نقوی نے گذشتہ ہفتے وزیراعلی خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور سے ٹیلی فونک رابطے میں سکیورٹی صورتحال پر بات چیت کی اور صوبے میں دہشتگردی کے حملوں پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔

وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ خیبرپختونخوا حکومت سے امن و امان کی صورتحال پر بات چیت ہوتی رہتی ہے اور خیبرپختونخوا ملک کا اہم صوبہ ہے جہاں ضرورت ہو گی مدد کریں گے۔

ضلع کرم اہم کیوں؟

پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔

پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔

کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔

پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔

’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔

رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں