73

اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان فائر بندی شروع

تل ابیب + بیروت (ڈیلی اردو/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی/ڈی پی اے) اسرائیل اور لبنان کی عسکری تنظیم حزب اللہ کے درمیان فائربندی باضابطہ طور پر نافذ العمل ہو گئی ہے۔ فائربندی بدھ کو مقامی وقت کے مطابق صبح چار بجے شروع ہوئی۔ یہ سیزفائر ایک سال سے زائد عرصے تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد ہوئی ہے، جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ معاہدہ طے پانے سے قبل اسرائیل نے لبنان میں حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا تھا۔

قبل ازیں امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کی رات اس فائربندی معاہدے کو ”دشمنی کے مستقل خاتمے‘‘ کے طور پر بیان کیا اور کہا کہ حزب اللہ اور دیگر گروپ اب اسرائیل کی سلامتی کے لیے خطرہ نہیں بنیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اسرائیل اور حماس کے درمیان فائربندی کے حصول کے لیے ”آنے والے دنوں میں‘‘ پھر سے دباؤ ڈالے گا۔

اگر یہ معاہدہ برقرار رہتا ہے، تو اس سے اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری لڑائی ختم ہو جائے گی، جس نے اسرائیل میں دسیوں ہزار اور لبنان میں لاکھوں شہریوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔

حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل میں دہشت گردانہ حملوں کے آغاز کے ایک دن بعد 8 اکتوبر 2023 سے دونوں فریقین کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔

حالیہ مہینوں میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان لڑائی میں ڈرامائی طور پر اضافہ ہوا ہے۔ ستمبر میں اسرائیل نے لبنان پر اپنی بمباری کی مہم تیز کر دی تھی اور حزب اللہ کے عسکریت پسندوں کو اسرائیل کی شمالی سرحد سے دور دھکیلنے کے لیے زمینی کارروائی بھی شروع کر دی تھی۔

اسرائیل اور لبنان کا ردعمل

اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ حزب اللہ کے ساتھ فائر​​بندی حماس کو تنہا کر دے گی۔ انہوں نے کہا، ”جب حزب اللہ تصویر سے باہر ہو جائے گی، تو حماس لڑائی میں تنہا رہ جائی گی اور اس پر ہمارا دباؤ بڑھ جائے گا۔‘‘

نیتن یاہو نے اشارہ دیا کہ گوکہ لبنان میں فائربندی سے غزہ میں فائربندی یا یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے میں سہولت کا امکان نہیں، جہاں اسرائیلی افواج حماس کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں، تاہم ”اس فائربندی سے اسرائیل کو حماس پر دباؤ زیادہ کرنے اور ایرانی خطرے پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا۔‘‘

لبنان کے نگران وزیر اعظم نجیب میقاتی نے اس فائربندی کو ”سکون اور استحکام پیدا کرنے کی طرف ایک ضروری قدم‘‘ قرار دیا ہے۔

میقاتی نے کہا کہ لبنان اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کے لیے پرعزم ہے، جس پر جنگ بندی کا معاہدہ قائم ہے۔ انہوں نے اپنی حکومت کے ”جنوب میں فوج کی موجودگی کو مضبوط بنانے‘‘ کے وعدے کو بھی دہرایا۔

عالمی رہنماؤں کا ردعمل

امریکی صدر جو بائیڈن نے فائربندی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ 60 دن کا معاہدہ، اگر مکمل طور پر لاگو ہوتا ہے، تو اسے اس طرح تیار کیا گیا ہے کہ اس سے ”دشمنی کا مستقل خاتمہ‘‘ ہو سکتا ہے۔

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا کہ لبنان میں فائربندی سے غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ‘راستہ کھل‘ سکتا ہے۔

صدر ماکروں نے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں کہا، ”اس معاہدے سے غزہ کی آبادی کے غیرمعمولی مصائب کے حوالے سے طویل عرصے سے انتظار کردہ فائربندی کا راستہ بھی کھلنا چاہیے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے اس فائربندی معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے ”پورے خطے کے لیے امید کی کرن‘‘ قرار دیا۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا، ”سرحد کے دونوں طرف کے لوگ حقیقی اور دیرپا سلامتی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔‘‘

یورپی یونین کے کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈئر لاین نے فائربندی معاہدے کا خیرمقدم کیا اور اسے لبنان اور اسرائیلیوں کے لیے ”حوصلہ افزا خبر‘‘ قرار دیا۔

فائر بندی معاہدے میں ہے کیا؟

یہ معاہدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 1701 پر مبنی ہے، جس کے تحت 2006 میں اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان 36 روزہ جنگ کا خاتمہ ہوا تھا۔

اس میں اسرائیل سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اگلے 60 دنوں میں لبنان سے اپنی فوجیں نکال لے۔

حزب اللہ کو اسرائیل کی سرحد سے تقریباً 30 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے لیتانی کے شمال میں اپنی افواج کو منتقل کرنے کی ضرورت ہو گی۔

لبنان کی فوج اقوام متحدہ کی امن فوج (یونیفل) کے ساتھ مل کر حزب اللہ کو وہاں اپنے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو سے روکنے کے لیے سرحدی علاقے کو محفوظ بنائے گی۔

اسرائیل اور لبنان دونوں کی منظوری سے ایک کمیٹی قائم کی جائے گی، جو ان وعدوں پر عمل درآمد کو یقینی بنانے میں نگرانی اور مدد کرے گی۔ اسرائیل اور لبنان ان وعدوں کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کی رپورٹ اس کمیٹی اور لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری افواج ‘یونیفل‘ کو پیش کریں گے۔

فائر بندی معاہدے پر اسرائیلی منقسم

اس فائر بندی معاہدے پر اسرائیلی شہری منقسم ہیں۔ ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ کے مطابق اسرائیل کے چینل 12 کے ایک سنیپ پول سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی باشندے حزب اللہ کے ساتھ اس فائربندی پر منقسم رائے رکھتے ہیں۔

جب معاہدے کی شرائط پر ان کے موقف کے بارے میں پوچھا گیا، تو 37 فیصد رائے دہندگان نے حمایت کا اظہار کیا، 32 فیصد نے اس کی مخالفت کی اور 31 فیصد نے کوئی جواب نہ دیا۔

وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے حکومتی اتحاد کے حامیوں میں سے صرف 20 فیصد اس معاہدے کی حمایت کرتے ہیں جبکہ 45 فیصد اس کی مخالفت کرتے ہیں اور 35 فیصد غیر یقینی رائے کے حامل ہیں۔ اس کے برعکس 50 فیصد حکومت مخالف ووٹروں نے اس فائربندی معاہدے کی حمایت کی۔

اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے رہنما اور قومی سلامتی کے وزیر اتمار بن گویر نے حزب اللہ کے ساتھ فائر​​بندی کے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے اسے ایک ”تاریخی غلطی‘‘ قرار دیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں