دمشق (ڈیلی اردو/بی بی سی) شام کے دوسرے سب سے بڑے شہر حلب پر صدر بشار الاسد کے مخالف مسلح ملیشیا کے تیزی کے ساتھ کیے جانے والے حملوں کے بعد یہ شہر شامی حکمران کی فوج کے ہاتھوں سے نکل گیا ہے۔
شام کی فوج نے تسلیم کیا ہے کہ باغی حلب کے ’بڑے حصوں‘ میں داخل ہو گئے ہیں۔
یہ عسکریت پسند بنیادی طور پر تحریر الشام (ایک اسلامی گروپ) اور دیگر ہم آہنگ جہادی گروپوں کے رکن ہیں اور یہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اس شہر پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
یاد رہے کہ آٹھ سال قبل جب شامی فوج نے حلب پر قبضہ کیا تھا تو یہاں کے شہریوں نے بشارالاسد کی فوج کی حمایت کی تھی۔
قاسم سلیمانی کی سربراہی میں ایران نے روسی فضائیہ اور شیعہ ملیشیا کی مدد سے اس پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے کئی مہینوں تک لڑائی جاری رکھی۔
2016 میں حلب پر دوبارہ قبضے نے شام کی 13 سالہ خانہ جنگی میں بشار الاسد کی پوزیشن کو مستحکم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
اب یوکرین کی جنگ پر توجہ مرکوز ہونے کی وجہ سے روسی فضائیہ شام کو پہلے جیسی فضائی مدد نہیں فراہم کر پا رہی اور گذشتہ مہینوں میں اسرائیلی حملوں کی وجہ سے پاسدارانِ انقلاب اور حزب اللہ کمزور ہو چکی ہیں اور شامی فوج کے لیے شہر اور آس پاس کے علاقوں میں اپنا دفاع کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں تنازعات سے بھرے چودہ مہینوں کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران اور اس کی پراکسیوں کے لیےغزہ کی پٹی اور جنوبی لبنان کے علاوہ شام میں بھی حالات اب مشکل ہو گئے ہیں۔
حلب پر دوبارہ قبضہ روسی فضائیہ، حزب اللہ اور قاسم سلیمانی کی کمان کے بغیر ممکن نہ تھا
16 دسمبر 2016 کو اسلامی جمہوریہ ایران کی جانب سے شام کے صدر بشار الاسد کی حمایت کے خلاف اسلام پسندوں کے ایک گروپ نے نماز جمعہ کے بعد استنبول میں ایرانی قونصلیٹ جنرل کی طرف مارچ کیا۔
پولیس نے ان مظاہرین کو رکاوٹیں کھڑی کر کے ایرانی قونصل خانے کے قریب جانے سے روکا لیکن صحافیوں کے کیمروں نے ان مظاہرین کی پلے کارڈز کی ساتھ تصویر کھینچ لی جس پر ایران مخالف نعرے درج تھے۔
ان دنوں بشار الاسد کی مخالف مسلح اپوزیشن نے کئی مہینوں کی لڑائی کے بعد حلب میں شکست تسلیم کر لی تھی اور شامی فوج نے چار سال بعد شہر پر مکمل قبضہ کر لیا تھا۔
حلب پر دوبارہ قبضہ روسی فضائیہ، پاسداران انقلاب، لبنان کی حزب اللہ اور قاسم سلیمانی کی کمان میں ایران کی حمایت یافتہ دیگر ملیشیاؤں کے بغیر ممکن نہیں تھا۔
اسد کی مخالف اپوزیشن کی شکست انقرہ کے لیے باعثِ تشویش تھی کیونکہ اس گروہ کے ایک بڑے حصے کو ترک حکومت کی حمایت حاصل تھی۔
اسی دن جب میں ترکی میں اسلام پسندوں کے احتجاج کی رپورٹنگ کے لیے استنبول میں ایرانی قونصلیٹ جنرل جا رہا تھا تو لمبی سفید داڑھی والے ڈرائیور نے مجھے کہا ’ہم نے تم ایرانیوں کا کیا بگاڑا؟‘
جب ترک وزیر خارجہ نے ایرانی ہم منصب کو ’میرا بھائی‘ کہہ کر پکارا
شام کی خانہ جنگی کے باعث انقرہ اور تہران کے درمیان تعلقات 2015 اور 2016 میں کشیدہ تھے۔ شام کی خانہ جنگی میں دوسرے ملکوں نے بھی حصہ ڈالا لیکن دشمنی کی آگ ایران اور ترکی کے درمیان بھڑک اٹھی تھی۔
2016 کی ناکام بغاوت اور اردوغان کے لیے ایران کی حمایت نے دوطرفہ تعلقات کو اس طرح بہتر بنانے میں مدد کی کہ بغاوت کے بعد ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے انقرہ کے پہلے دورے کے دوران ان کے ہم منصب مولود چاوش اوغلو نے انھیں ’میرا بھائی جواد‘ کہہ کر پکارا۔
لیکن جس وقت انقرہ، تہران اور ماسکو کے ساتھ اپنے تعلقات میں تناؤ کو کم کر رہا تھا، شام میں ان کے بیچ مقابلہ جاری رہا۔
ان برسوں میں ایران اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ممبران اور دنیا کی بڑی عالمی طاقتوں (امریکہ، چین، فرانس، روس، برطانیہ اور جرمنی) کے ساتھ جوہری معاہدہ کرنے میں کامیاب رہا اور عراق، شام، لبنان اور یمن میں اپنی موجودگی کو بڑھاتے ہوئے علاقائی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بھی بڑھا لیا۔
اس وقت ایران کے فوجی کمانڈروں نے بحیرہ روم کے ساحلوں اور اسرائیل کی سرحدوں کے قریب اسلامی جمہوریہ کی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ قائم کرنے کی کوشش کی۔۔۔ ترکی سمیت دیگر علاقائی طاقتیں خطے میں ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے پریشان تھیں۔
’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ پر ازسرِ نو غور
ڈونلڈ ٹرمپ کی 2018 میں جوہری معاہدے سے دستبرداری اور زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی کے اطلاق نے اسلامی جمہوریہ کو مالی طور پر نقصان پہنچایا۔
اس سے زیادہ بڑا دھچکا پاسدارنِ انقلاب کی قدس فورس کے کمانڈر قاسم سلیمانی کا قتل تھا۔
لیکن ان برسوں میں جن دیگر عوامل نے مشرق وسطیٰ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے علاقائی اثر و رسوخ کو نقصان پہنچایا، ان میں 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر حماس کا حملہ بھی شامل ہے۔
حزب اللہ کے رہنما حسن نصر اللہ، اس گروپ کے کئی سینیئر کمانڈروں کی ہلاکت اور پیجرز دھماکوں سمیت دیگر حملوں نے (جو تفصیلی انٹیلیجنس منصوبہ بندی کے بغیر ممکن نہیں تھے) ایران کو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔ اس سے ایران اپنی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے بارے میں ازسرِ نو غور کرنے پر مجبور ہوا۔
کئی سال سے اسرائیل لبنان اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا گروپوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے اور ایران کے اندر انٹیلیجنس کارروائیوں کے علاوہ اہم فوجی اور جوہری شخصیات کو نشانہ بنانے میں بھی کامیاب رہا۔
لیکن تہران میں حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ کا قتل ایران کے لیے سب سے بڑے دھچکوں میں سے ایک تھا۔
دوسری طرف شام میں ایران کی سب سے اہم پراکسی پاسدارانِ انقلاب اور حزب اللہ کے ٹھکانوں پر حملوں کی شدت نے ایران کو پچھلے دس سال کے دوران خطے میں اس کی کمزور ترین پوزیشن پر لا کھڑا کیا۔
ترکی اور شام
گذشتہ 13 برس کی دشمنی کے باوجود انقرہ نے حالیہ مہینوں میں دمشق کے ساتھ مذاکرات پر آمادگی ظاہر کی۔
تین ہفتے قبل ترک صدر رجب طیب اردوغان نے بشار الاسد کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید ظاہر کی تھی لیکن شام ترکی کے سفارتی اشاروں سے خوش نہیں۔
اگرچہ حلب پر حملے کی ذمہ داری شامی ادارتی بورڈ اور دیگر اسلام پسند مسلح گروپوں کی ملیشیا پر عائد کی گئی تاہم ادلب میں مقیم ترک حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی موجودگی کے بارے میں بھی رپورٹس شائع ہوئی ہیں۔
اگر یہ رپورٹس درست ہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ حلب کی جنگ کے آٹھ سال بعد اردوغان کو ان کے صبر و تحمل کا پھل مل گیا۔
اس مرتبہ روس یوکرین کے ساتھ مصروف ہے اور ان کی فوج شام میں بشار الاسد کو فائدہ نہیں پہنچا سکتی اور پاسدارانِ انقلاب اور حزب اللہ کے پاس حکمت عملی و لاجسٹک صلاحیتوں کا فقدان ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آج کے شام کی صورت حال ایران اور ترکی کے درمیان شطرنج کے کھیل سے زیادہ پیچیدہ ہے۔
کرد ملیشیا جس طرح سے حلب کے کرد باشندوں کا دفاع کر رہی ہے، یہ اور اس جیسے بہت سے عوامل جنگ کا رخ موڑ سکتے ہیں۔
حالیہ مہینوں میں اسرائیل کے پے در پے حملوں نے خطے میں طاقت ک کھیل میں ایران کی صلاحیتوں کو بہت کمزور کر دیا ہے۔۔۔ خاص طور پر شام اور لبنان میں اور اگر مستقبل قریب میں بشار الاسد کے مخالفین کو حلب سے نکال بھی دیا جائے تو امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بنتے ہی اسلامی جمہوریہ ایران کی ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ بحیرہ روم کے ساحل پر بھی کہیں نہیں ملے گی۔