اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی حکومت کے عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کی تاریخ پرانی ہے۔ تازہ آپریشن کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان ایک طرف سیاسی بحران کی زد میں ہے اور دوسری طرف عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں غیرمعمولی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ خاص طور پر رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں سکیورٹی چیلنجز مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں۔
بلوچستان میں حالیہ آپریشن کا فیصلہ دُکی میں کان کنوں کی ہلاکت، مستونگ میں ہونے والے خوفناک بم دھماکے اور کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر دہشت گردی جیسے سنگین واقعات کے بعد کیا گیا۔ ان کارروائیوں میں بلوچستان لبریشن آرمی، بلوچ ریپبلکن آرمی، بلوچ لبریشن فرنٹ اور دیگر گروہوں کے مبینہ طور پر ملوث ہونے کی اطلاعات ہیں۔
پاکستانی فوج نے سن 2007 سے اب تک عسکریت پسندوں کے خلاف ایک درجن سے زائد بڑی اور چھوٹی فوجی کارروائیاں انجام دی ہیں۔
آپریشن رَدُ الفَساد
فروری 2017 میں پاکستان کی فوج نے آپریشن ردالفساد کا آغاز کیا، جو ملک بھر میں شدت پسندوں کے بنیادی ڈھانچوں کو تباہ کرنے کے لیے ایک جامع قومی مہم تھی۔ اس آپریشن کا مقصد فرقہ وارانہ تشدد اور بڑے شہروں میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کو روکنا تھا۔ رَدُ الفَساد دیہی اور شہری دونوں علاقوں میں یکساں طور پر کیا گیا، جہاں جامع حکمت عملی اپنائی گئی۔ اس میں خفیہ نیٹ ورکس کے خاتمے، عسکریت پسندوں کی مالی معاونت کو ناکام بنانے اور نظریاتی انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے پر خصوصی توجہ دی گئی۔
آپریشن ضربِ عضب
جون 2014 میں پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب شروع کیا، جس کا مقصد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، حقانی نیٹ ورک اور دیگر غیر ملکی شدت پسند گروپوں کو نشانہ بنانا تھا۔ اس آپریشن کے دوران آٹھ سو سینتیس گھر تباہ ہوئے۔ یہ آپریشن دو ہزار پندرہ سے دو ہزار سترہ تک جاری رہا، جس میں اعلیٰ شدت پسند رہنماؤں کا خاتمہ اور پاکستان بھر میں شدت پسندانہ سرگرمیوں میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملی۔
آپریشن کوہِ سفید
سن 2011 میں پاکستانی فوج نے کرم ایجنسی میں آپریشن کوہِ سفید کیا، جس کا مقصد اہم راستوں کو محفوظ بنانا اور شدت پسندوں کی پناہ گاہوں کو ختم کرنا تھا۔ اس آپریشن کا خاص فوکس پاراچنار روڈ پر تھا، جو طویل عرصے سے فرقہ وارانہ اور شدت پسندانہ تشدد کا مرکز رہا ہے۔
آپریشن راہِ نجات
سن 2009 میں آپریشن راہِ نجات شروع کیا گیا، جس کا مقصد جنوبی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مضبوط گڑھ کو نشانہ بنانا تھا۔ اس آپریشن نے اہم شدت پسندوں کو بے دخل کیا اور ٹی ٹی پی کے کمانڈ اسٹرکچر کو نقصان پہنچایا گیا، جس سے اس گروپ کی موجودگی کمزور ہوئی۔ دو ہزار نو سے دو ہزار چودہ کے دوران پاکستان نے وزیرستان اور دیگر اضلاع میں فوجی آپریشنز تیز کیے۔
آپریشن راہِ راست
مئی 2009 میں پاکستانی فوج نے آپریشن راہِ راست شروع کیا، جسے آپریشن بلیک تھنڈر اسٹورم بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا مقصد وادی سوات کو طالبان کے جنگجوؤں سے آزاد کرانا تھا۔ تقریباً پچیس لاکھ افراد نے سوات اور اس کے اطراف کے شہروں، جیسے پشاور، مردان اور چارسدہ میں پناہ لے لی تھی، جہاں وہ کیمپوں، رشتہ داروں یا کرائے کے گھروں میں رہ رہے تھے۔ اس آپریشن میں تقریباً ایک ہزار چھ سو پینتیس جنگجوؤں کا خاتمہ، دو سو پچاس سے زاید کی گرفتاری اور عسکریت پسندوں کے متعدد کیمپوں اور پناہ گاہوں کا خاتمہ شامل تھا۔ صرف ساٹھ دنوں میں آپریشن راہِ راست نے مالاکنڈ ڈویژن میں عسکریت پسندوں کے نیٹ ورک کو تباہ کر دیا۔
آپریشن راہ حق
آپریشن راہ حق کے پہلے مرحلے کا آغاز نومبر 2007 میں سوات میں ہوا، جس کا مقصد طالبان کے ان جنگجوؤں کو پیچھے دھکیلنا تھا، جنہوں نے حکومتی عمارتوں اور پولیس اسٹیشنوں پر قبضہ کر لیا تھا۔ آپریشن کے ابتدائی مراحل میں شدید توپخانہ بمباری کی گئی، جس کے نتیجے میں طالبان فورسز پہاڑوں کی طرف پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئیں۔
کالوشہ ٹو
سن 2004 میں پاکستان فوج نے سرحد پار سے جنوبی وزیرستان سے آنے والے عسکریت پسندوں کو روکنے کے لیے آپریشن ’’کالوشہ ٹو‘‘ کیا۔ اس آپریشن نے عارضی طور پر عسکری سرگرمیوں کو روکنے میں کامیابی حاصل کی، مگر یہ دہشت گردی کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہا۔
آپریشن المیزان
پاکستانی فوج نے سن 2002 سے 2006 کے دوران جنوبی وزیرستان میں آپریشن ’’المیزان‘‘ کیا۔ اس آپریشن کا مقصد القاعدہ اور طالبان کے ان عناصر کو نشانہ بنانا تھا، جو اس علاقے میں پناہ گزین تھے۔ اگرچہ اس آپریشن نے ان دہشت گرد گروپوں کو کمزور کرنے میں کامیابی حاصل کی، مگر یہ مکمل طور پر بغاوت کے خطرے کو ختم نہ کر سکا اور علاقے میں عدم استحکام برقرار رہا۔
دہشت گردی اور ہلاکتیں
پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز اسلام آباد کے اعداد و شمار کے مطابق، سن 2018 میں ملک میں دو سو باسٹھ دہشت گردانہ حملے ہوئے، جن میں پانچ سو پچانوے افراد مارے گئے۔ سن 2019 میں حملوں کی تعداد کم ہو کر دو سو انتیس ہو گئی، جبکہ ہلاکتوں کی تعداد تین دو ستاون رہی۔ سن 2020 میں حملوں کی تعداد مزید کم ہو کر ایک سو چھالیس رہی اور دو سو بیس افراد ہلاک ہوئے۔
تاہم سن 2021 میں حملوں میں دوبارہ اضافہ ہوا، جن کی تعداد دو سو سات تک پہنچ گئی اور تین سو پینتیس افراد ہلاک ہوئے۔ سن 2022 میں دو سو باسٹھ حملے ریکارڈ کیے گئے، جن میں چار سو انیس افراد جان کی بازی ہار گئے۔ سن 2023 میں دہشت گردانہ حملوں میں نمایاں اضافہ ہوا اور تین سو حملوں میں چھ سو ترانوے افراد مارے گئے۔
کیا فوجی آپریشن مسائل کا مستقل حل ہیں؟
دفاعی تجزیہ کاروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فوجی آپریشن مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ جب تک مسئلے کی اصل وجوہات کو دور نہیں کیا جاتا، ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ مشکل ہے۔ ان کے مطابق بیرونی عوامل سے بچاؤ اسی وقت ممکن ہے، جب عوام کی محرومیوں اور مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔ بصورت دیگر دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف جاری کوششیں مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکیں گی۔
افشاں تحسین، سابق چیئرپرسن نیشنل کمیشن برائے حقوقِ اطفال اور سی ای او ہیومن کیپٹل پاکستان، نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کسی بھی علاقے میں آپریشنز کو پہلی حکمت عملی کے طور پر نہیں اپنایا جانا چاہیے بلکہ یہ فیصلہ صورتحال کے بغور جائزے کے بعد ہی ہونا چاہیے۔
وہ کہتی ہیں، ”ہمیں اندرونی یا بیرونی عوامل کو سمجھتے ہوئے مقامی کمیونٹیز کے ساتھ مل کر ایک مؤثر حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے وہاں سے غربت کے خاتمے، تعلیم کے فروغ اور مقامی لوگوں کے مسائل پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
سکیورٹی تجزیہ کار محمد عامر رانا نے بلوچستان میں ممکنہ فوجی آپریشن کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ صرف فوجی کارروائی کو مسئلے کا واحد حل سمجھنا مناسب نہیں۔ ان کے مطابق اس ضمن میں سیاسی مذاکرات، سماجی اور اقتصادی ترقی جیسے اقدامات بھی ضروری ہیں،”شورش کے خاتمے کے لیے ایک جامع حکمت عملی اپنانا ہو گی، جس میں تمام فریقین کو شامل کیا جائے تاکہ مسئلے کا دیرپا اور پائیدار حل ممکن ہو سکے۔‘‘
عامر رانا نے مزید کہا کہ پاک فوج کی جانب سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان دونوں صوبوں میں متعدد فوجی آپریشنز کیے گئے، جن میں سے تمام عسکری طور پر کامیاب رہے۔ تاہم ان کے سیاسی مضمرات بھی اہم ہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا میں آپریشن کے بعد اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد (آئی ڈی پیز) کا مسئلہ سماجی، اقتصادی اور سیاسی بے چینی کا باعث بنا۔
اسی طرح بلوچستان میں فوجی آپریشن فیلڈ میں تو کامیاب رہے ہیں لیکن سیاسی طور پر بے نتیجہ رہے۔ اس کی بڑی وجہ متاثرہ کمیونٹیز اور سیاسی قیادت کے ساتھ رابطے کے لیے بیک اپ پلان کا نہ ہونا تھا۔ وہ کہتے ہیں،”میرے خیال میں بلوچستان میں بھرپور فوجی آپریشن کی بجائے چھوٹے پیمانے پر کارروائیوں سے مدد لینی چاہیے۔‘‘