18

حلب: شامی اور روسی جیٹ طیاروں نے باغیوں پر حملے تیز کر دیے

دمشق (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے/رائٹرز) شام میں اپوزیشن کے زیر اہتمام کام کرنے والے ادارے ‘ریسکیو سروس وائٹ ہیلمٹس’ نے پیر کی صبح بتایا کہ اتوار کے روز شمال مغربی شام میں باغیوں کے زیر قبضہ شہر ادلب پر شامی اور روسی فضائی حملوں میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہو گئے۔

شامی اور روسی جیٹ طیارے اس حیران کن حملے کے جواب میں شمالی شام میں حزب اختلاف کی فورسز پر اپنے حملے تیز کر دیے ہیں، جس کے سبب ملک کے دوسرے بڑے شہر حلب پر حکومتی کنٹرول کو بھاری نقصان پہنچا ہے۔

اسلام پسند گروپ حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کی قیادت میں شامی باغی دھڑوں کے ایک اتحاد نے ہفتے کے اواخر میں مبینہ طور پر حلب پر قبضہ کر لیا، جس کے بعد شام کے صدر بشار الاسد نے جوابی کارروائی کا اعلان کرتے ہوئے اتحادیوں کی مدد سے فضائی حملے شروع کیے ہیں۔

حلب کے مشرق میں ایک اہم فوجی اڈے اور حلب اور ادلب دونوں صوبوں کے بڑے علاقوں پر باغیوں کے اتحاد نے قبضہ کر لیا ہے، جبکہ انہیں حکومتی قوتوں کی جانب سے زمین پر بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

باغی گروپوں نے اتوار کے روز حلب شہر کے مشرق میں اہم فوجی مقامات پر قبضہ کر کے اپنی کامیابیاں مضبوط کر لیں، تاہم اطلاعات کے مطابق انہوں نے کچھ محلوں کو کرد فورسز کے ہاتھوں میں چھوڑ دیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حلب پر اپوزیشن فورسز کے کنٹرول کا مطلب یہ ہوا کہ شامی وزارت دفاع کی طرف سے جوابی کارروائی کا عمل بہت مشکل ہو گا۔

واضح رہے کہ باغیوں نے 27 نومبر کے روز شامی حکومت کے خلاف اپنے حملے شروع کیے تھے اور حلب پر کنٹرول کے بعد اب وہ جنوب کی طرف صوبہ ہما کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

تاہم اسد کی فوج نے پیر کے روز یہ دعوی کیا کہ اس نے باغیوں کے ہاتھ سے کئی قصبوں کو چھین لیا ہے اور ان پر دوبارہ حکومتی فوج کا قبضہ ہے۔

تنازعے پر نیٹو ممالک نے کیا کہا؟

اتوار کو رات دیر گئے امریکہ، برطانیہ، فرانس اور جرمنی نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں شہریوں اور بنیادی ڈھانچے کے تحفظ پر زور دیا تاکہ لوگوں کو “مزید بے گھر ہونے اور انسانی ہمدردی کی رسائی میں خلل کو روکا جا سکے۔”

بیان میں مزید کہا گیا کہ “موجودہ کشیدگی بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2254 کے تحت شام کے تنازعے کے سیاسی حل کی فوری ضرورت پر زور دیتی ہے۔”

واضح رہے کہ سن 2015 کی اس قرارداد میں شامی حکومت اور اپوزیشن فورسز کے درمیان امن مذاکرات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

اس سے پہلے شام کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی گائیر پیڈرسن کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا تھا، ”میں شامیوں اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے درمیان فوری اور سنجیدہ سیاسی رابطہ کاری کا مطالبہ کرتا ہوں، تاکہ خون خرابے سے بچا جا سکے اور سکیورٹی کونسل کی قرارداد نمبر 2254 کے تحت ایک سیاسی تصفیے تک پہنچا جا سکے۔”

گائیر کے بیان میں مزید کہا گیا کہ “تازہ ترین پیش رفت عام شہریوں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے اور اس کے علاقائی اور بین الاقوامی امن پر سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں