38

حملوں میں اضافہ؛ کیا ٹی ٹی پی وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کی چپقلش کا فائدہ اٹھا رہی ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) “پانچ نومبر کی شام جب میرے شوہر نے گھر ٹیلی فون کال کی تو مجھے تنہائی میں آنے کا کہا۔ جیسے ہی میں نے کال اٹھائی تو پیچھے سے کسی نے ان کو آواز دی جس کے بعد انہوں (شوہر) نے بتایا کہ پانچ منٹ بعد دوبارہ کال کرتا ہوں۔”

یہ الفاظ ہیں ضلع کرک کی رہائشی فریال کے، جن کے شوہر لانس نائیک مزمل محمود چھ نومبر کو جنوبی وزیرستان کے علاقے کڑمہ میں عسکریت پسندوں سے لڑتے ہوئے زندگی ہار بیٹھے تھے۔

فریال کا مزید کہنا تھا کہ مزمل کو وزیرستان میں تعینات ہوئے تین سال مکمل ہونے والے تھے۔

جنوبی وزیرستان میں جھڑپ کے بارے میں پاکستان فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس معرکے میں مزمل محمود سمیت چار اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔

مزمل کی اہلیہ فریال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ سات نومبر کی صبح اپنی والدہ کے گھر میں تھیں جب پڑوس میں ایک خاتون نے مزمل کے بارے میں پوچھا کہ کیا مزمل کے ساتھ کوئی رابطہ ہوا ہے؟ جس پر انہیں بتایا کہ کل بات ہوئی تھی۔ وہ بالکل ٹھیک ہیں اور دو دن بعد چھٹی پر آنے کا پروگرام بنایا ہے۔ اس کے بعد خاتون نے بتایا کہ آپ اپنے گھر جائیں کیوں کہ اطلاع موصول ہوئی ہے کہ مزمل کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے جس میں وہ شدید زخمی ہوئے ہیں۔

ان کے بقول وہ خطرے کو بھانپ گئی تھیں کیوں کہ وزیرستان سے ایکسیڈنٹ کی خبر کا مطلب کچھ اور ہی ہوتا ہے اور وہی ہوا جس کا ڈر لیے وہ والدین کے گھر سے اپنے گھر پہنچیں تھیں، تو وہاں صفِ ماتم بچھی ہوئی تھی۔

واضح رہے کہ پاکستان کے افغانستان کی سرحد کے ساتھ واقع دو صوبوں خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں حالیہ عرصے میں اضافہ ہوا ہے۔

اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ’پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کونفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ حملوں اور جھڑپوں میں 245 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 68 سیکیورٹی اہلکار بھی شامل تھے۔

رپورٹ کے مطابق ان حملوں میں سو سے زائد سیکیورٹی اہلکاروں سمیت کم از کم 257 افراد زخمی ہوئے تھے۔

دوسری جانب پاکستان میں کالعدم تنظیم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے نومبر میں 200 سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

اس صورتِ حال کو مبصرین پریشان کن قرار دے رہے ہیں۔ 2023 میں سامنے آنے والی کتاب ‘دی ریٹرن آف طالبان’ سمیت عسکریت پسندی پر متعدد کتابوں کے مصنف اور واشنگٹن ڈی سی کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی (این ڈی یو) میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس کا کہنا ہے کہ اس وقت ٹی ٹی پی حقیقی معنوں میں پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کے لیے دردِ سر بن چکی ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس نے دعویٰ کیا کہ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو سرحدی علاقوں میں رہنے کی اجازت دی ہے۔ محفوظ پناہ گاہیں ملنے کے باعث وہ پاکستان کے اندر براہِ راست حملے کرتے ہیں۔ ان کے بقول پاکستان کے سیکیورٹی اداروں کی جانب سے تعاقب کرنے پر یہ عسکریت پسند واپس افغانستان فرار ہو جاتے ہیں۔

افغانستان میں اگست 2021 سے برسرِ اقتدار طالبان پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کی سرحد پار محفوظ پناہ گاہوں کے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں۔ افغان طالبان ٹی ٹی پی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں۔

افغانستان کی طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ دوحہ امن معاہدے کے مطابق وہ اپنی سر زمین کو کسی بھی ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے رہے۔ اس لیے ٹی ٹی پی کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا پاکستان کا الزام درست نہیں ہے۔

اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس پاکستان کی موجودہ سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے انٹیلی جینس میکنزم پر بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ جو مہارت پاکستان کے خفیہ اداروں کے ایجنٹس کو دہشت گردوں کے خلاف آپریشنِ ضرب عضب کے دوران حاصل تھی اب اس کی نوعیت برقرار نہیں ہے جس کی وجہ سے آئے روز سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انٹیلی جینس ایجنسیوں نے دہشت گردوں کے نیٹ ورک، الحاق، حکمتِ عملی، افرادی قوت اور جدید اسلحے کے استعمال کو زیادہ اہم نہ جان کر اسے کم تر سمجھا ہے۔

سینئر صحافی اور تجزیہ کار داؤد خٹک یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ پاکستان کی منظم فوج استعداد، تربیت، جنگی مہارت، جدید اسلحے اور ڈرونز کے ساتھ فضائی برتری کے باوجود کیسے ٹی ٹی پی کے ہاتھوں مستقل بھاری نقصان اٹھا رہی ہے؟

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ پاکستانی سیکیورٹی فورسز ان علاقوں میں مقامی لوگوں کا اعتماد کھو رہی ہیں کیوں کہ زیادہ تر شدت پسندوں کا تعلق انہی علاقوں سے ہے جہاں فورسز کے اہلکار نشانہ بن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ مقامی افراد عسکریت پسندوں کے شانہ بشانہ لڑیں۔ ان کے بقول بعض مقامی افراد ٹی ٹی پی کے حوالے سے اگر خفیہ اطلاعات کو سیکیورٹی اداروں سے مخفی رکھتے ہوں۔ ضرورت کے وقت ان کو پناہ یا کھانا فراہم کرتے ہوں تو یہ وہ عوامل ہیں جو عسکریت پسندوں کے حق میں ہیں جب کہ سیکیورٹی فورسز کو ان سے نقصان ہوتا ہے۔

ٹی ٹی پی کی حکمتِ عملی پر بات کرتے ہوئے پروفیسر حسن عباس کہتے ہیں کہ افغانستان سے اتحادی افواج کا انخلا بھی ٹی ٹی پی کی ہمت میں اضافے کی ایک بڑی وجہ ہے۔ ٹی ٹی پی سمجھتی ہے کہ جب افغان طالبان امریکہ سمیت دیگر مغربی افواج کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کر سکتے ہیں تو اس کے جنگجو پاکستانی فوج کے خلاف بھی اسی انداز میں لڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ان کے بقول پاکستانی طالبان اسی لیے ہمیشہ نئے نیٹ ورکس بنانے اور آپس کی چپقلش ختم کرکے نئے محاذ کھولنے کی تراکیب سوچتے رہتے ہیں۔

عسکریت پسندوں کی کارروائیوں میں اضافے پر بات کرتے ہوئے صحافی داؤد خٹک کا کہنا تھا کہ اس سے نہ صرف یہ سیکیورٹی فورسز کو جانی اور مالی نقصان ہو رہا ہے۔ بلکہ اہلکاروں کے حوصلے بھی پست ہونے کا خدشہ ہے۔

داؤد خٹک کا دعویٰ تھا کہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی حکمتِ عملی سیکیورٹی اداروں کے حکام کے مقابلے میں بہت آگے دکھائی دیتی ہے۔ ان کے بقول وہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے پروپیگنڈے کو زائل کر رہے ہیں جب کہ اب وہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کی ہمدریاں بھی سمیٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دہشت گردوں کے حملوں میں اضافے کو پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس بھی سیاسی انتشار سے جوڑتے ہیں۔ ان کے بقول ٹی ٹی پی نے اپنی جنگ کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ عوام میں اپنے خلاف نفرت کو زائل کرنے پر بھی کام کیا ہے جس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی طالبان اب اپنی کارروائیوں میں صرف پولیس، ایف سی اور فوج کے اہلکاروں کو ہی نشانہ بنا رہے ہیں۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کے اسلام آباد میں احتجاج میں مظاہرین کے خلاف حکومت کی جانب سے طاقت کے استعمال پر بھی ٹی ٹی پی نے ایک بیان جاری کیا اور اس کی مذمت کی۔

ان کے مطابق اس طرح عام لوگوں کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی سیاسی جماعتوں کے کارکنان سے بھی ہمدردی کا اظہار کرکے اپنے خلاف نفرتیں ختم کرنے کی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر حسن عباس نے کہا کہ ان تمام تر چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے پاکستانی دفاعی اداروں کو ایک واضح حکمتِ عملی کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا اور ایسے میں افغان طالبان پر دباؤ ڈالتے ہوئے ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو ختم کرنا ہو گا۔

صحافی داؤد خٹک نے کہا کہ خیبر پختونخوا اور وفاق کی چپقلش کا بھی ٹی ٹی پی بھرپور فائدہ اٹھا رہی ہے۔ ان کے مطابق ماضی میں عوامی نیشنل پارٹی کھل کر ٹی ٹی پی کے خلاف کھڑی ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ انہیں ایسا لگتا ہے کہ ایک دہائی سے زائد عرصے میں صوبائی حکومت نے دہشت گردوں سے لڑنے کے بجائے اپنے تحفظ پر زیادہ توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔

داؤد خٹک کا دعویٰ تھا کہ موجودہ صوبائی حکومت کسی بھی دہشت گردی کی کارروائی کی کھل کر مذمت نہیں کرتی۔ بلکہ اگر کبھی وفاقی حکام قبائلی علاقوں میں آپریشن کی بات کرتے ہیں تو صوبائی حکومت کھل کر اس کی مخالفت کرتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایسا نہیں لگتا کہ آنے والے دن دہشت گردی پر قابو پانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ دہشت گردوں کی کارروائیاں مزید شدت اختیار کر سکتی ہیں۔

وزیرستان میں جھڑپ میں ہلاک ہونے والے فوج کے لانس نائیک مزمل محمود کی اہلیہ فریال کہتی ہیں کہ وہ اپنی باقی ماندہ زندگی کے بارے میں فکر مند ہیں۔

ان کے مطابق وہ اپنے دو بچوں کو، جن کی عمر ساڑھے تین سال اور تین ماہ ہیں، اچھی تعلیم دلوانے کی خواہاں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مزمل جب مستقبل کے بارے میں بات کرتے تھے تو گھر میں ایک کمرہ ہونے کی شکایت کرتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ وہ بار بار کہتے تھے کہ اپنے بچوں کے لیے وہ ایک نیا بڑا گھر بنائیں گے تاکہ خوش و خرم زندگی گزار سکیں۔

فریال کہتی ہیں کہ نیا گھر تو بن جائے گا لیکن مزمل کے ساتھ کے بغیر ایسا ہوگا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں