دمشق (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/وی او اے) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے منگل کو باغیوں کی پیش قدمی کے باعث شام کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال پر غور کرنے کے لیے اجلاس بلایا جبکہ حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کی حلب پر قبضے کے بعد حما شہر کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔
حکومتی افواج کے خلاف پیش قدمی کرنے والے شامی باغی منگل کو اہم شہر حما کے قریب پہنچ گئے، باغیوں اور سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا کہ باغیوں نے شہر سے چند میل شمال میں مار شاہور سمیت دیہاتوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ شام کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ علاقے میں کمک پہنچ رہی ہے۔
حما پر حملہ صدر اسد پر دباؤ بڑھا دے گا، جن کے روسی اور ایرانی اتحادی ان کی حمایت میں لڑ رہے ہیں۔ 2011 میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے یہ شہر حکومت کے قبضے میں ہے۔
ایران، عراق اور روس کا ردعمل
ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے عربی زبان میں انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ اگر دمشق کہے تو تہران شام میں فوج بھیجنے پر غور کرے گا۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن نے بقول انکے شام میں “دہشت گرد جارحیت” کے خاتمے پر زور دیا۔
عراق کے وزیر اعظم شیعہ السوڈانی نے کہا کہ بغداد شام میں “محض تماشا” نہیں دیکھےگا۔ ان کے دفتر نے باغیوں کی پیش قدمی کے لیے، شامی حکومت پر اسرائیلی فوجی حملوں کو مورد الزام ٹھرایا۔
اسد کی مشکلات میں اضافہ کرتے ہوئے، ایک امریکی حمایت یافتہ، کرد قیادت والے اتحاد کے جنگجوؤں نے شمال مشرق میں حکومتی افواج سے لڑائی کی ہے۔
گزشتہ ہفتے شروع ہونے والے باغیوں کے حیران کن حملوں اور حلب شہر پر قبضے کے بعد ان کے اہم شہر حما پر حملے جاری ہیں۔
تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث جنگوں سے دو چار مشرق وسطی میں ایک اور شدید جنگ کے خدشات بڑھ گئے ہیں۔
عالمی ادارے کے نیویارک میں ہیڈ کوارٹرز میں ہونے والے 15 رکنی کونسل کے جلاس سے قبل اقوام متحدہ نے شامی صدر بشارالاسد کی فوج اور باغیوں کی لڑائی میں شہریوں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔
گزشتہ ہفتے اچانک پھوٹنے والی لڑائی میں اقوام متحدہ کے مطابق شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور اسپتالوں پر بھی حملے کیے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق شام میں دہشت گرد گروپ حیات تحریر الشام اور دیگر مسلح دھڑوں کی جانب سے حلب، ادلب اور حما شہروں پر حملوں سے شہریوں کے لیے شدید مشکلات پیدا ہوئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر او ایچ سی ایچ آر کے ترجمان جیریمی لارنس نے جنیوا میں کہا کہ لڑائی کے نتیجے میں شہری تنصیبات اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے جن میں صحت کی سہولیات، تعلیمی ادارے اور فوڈ مارکیٹیں شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق برطانیہ میں قائم”سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس” نے بتایا کہ باغی فورسز منگل کو شہر حما کے دروازوں پر پہنچ گئیں اور فوج کے ساتھ ان کی لڑائی نے لوگوں کے “در بدر ہوجانے کی ایک بڑی لہر” کو جنم دیا ہے۔
“سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس” نے منگل کی شام کہا کہ باغی جنگجوؤں نے حما شہر کے کچھ محلوں پر گولہ باری کی ہے۔
شام میں امریکی فوج پر حملہ
ادھر واشنگٹن میں پینٹا گون نے کہا ہے کہ امریکی فوجیوں نے مشرقی شام میں اپنے دفاع میں کارروائی کی جس کا محکمہ دفاع کے مطابق ملک میں جاری باغیوں کی پیش قدمی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے دفاع میں ہتھیاروں کے نظام کے خلاف حملہ کیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹ رائڈر نے صحافیوں کو بتایا کہ منگل کو امریکی فوج نے ملٹری سپورٹ سائٹ فرات میں امریکی فوجیوں کی طرف پروجیکٹائل داغے جانے کے بعد تین موبائل راکٹ لانچرز اور ایک ٹینک سمیت ہتھیاروں کے نظام کو نشانہ بنایا۔
ترجمان نے مزید کہا کہ فوج اس بات کا جائزہ لے رہی ہے کہ امریکی فوجیوں کے خلاف حملے کس نے کیے۔
تاہم، ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایران کی حمایت یافتہ فورسز نے ایسے حملے کیے تھے۔
رائڈر نے کہا کہ شامی فوجی دستے بھی اس علاقے میں موجود ہیں۔
شام میں تقریباً 900 امریکی فوجی موجود ہیں جو خطے میں داعش کے عسکریت پسندوں کا مقابلہ کرنے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔