77

وفاقی حکومت خیبرپختونخوا میں قیام امن کیلئے اقدامات کرے، اے پی سی

پشاور (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) گورنر خیبر پختونخوا کی میزبانی میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کے شرکا نے وفاقی حکومت سے فوری طور پر صوبے میں قیام امن کے لیے اقدامات اٹھانے اور وفاق کے ذمے واجب الادا صوبائی بقایا جات کی فوری ادائیگی کے مطالبات کیے ہیں۔ آج بروز جمعرات پشاور میں منعقدہ اس کانفرنس کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ گورنر کے پی فیصل کریم کنڈی کی طرف سے طلب کی گئی اس کانفرنس میں سولہ کے قریب سیاسی جماعتوں نے شرکت کی تاہم صوبے میں حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کا کوئی بھی نمائندہ اس میں شامل نہیں ہوا۔ اس کانفرنس کا انعقاد ایک ایسے موقع پر کیا گیا، جب وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے مابین جاری کشیدگی کی وجہ سے صوبے کے عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

صوبے میں مسلسل تیسری مرتبہ برسر اقتدار پی ٹی آئی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ عوامی مسائل کے حل میں ناکام رہی ہے۔ جبکہ وفاقی حکومت بھی صوبے کی بہتری کے حوالے سے کوئی قابل زکر پیش رفت نہیں کر سکی۔ کانفرنس کے اختتام پر صوبے میں ضم کیے گئے سابقہ قبائلی علاقہ جات کی ترقی کے لیے فوری طور پر فنڈز ریلیز کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

گورنر خیبر پختونخوا نے اس کانفرنس کے دوران صوبائی حکومت کی کارکردگی کو نشانہ بنایا۔ میڈیا سے بات چیت میں انکا کہنا تھا، ”پاکستان تحریک انصاف اپنے حلف سے غافل ہے۔ وہ صوبے کو دہشت گردوں کے حوالے کر کے خود اسلام آباد پر چڑھائی کرتے رہتے ہیں۔‘‘ گورنر کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کو عوام، صوبائی وسائل اور امن سے کوئی سروکار نہیں۔

تحریک انصاف کی اس کانفرنس میں عدم شرکت کے حوالے سے صوبائی اسمبلی کے رکن احمد کنڈی کا کہنا تھا کہ ان کی وساطت سے اسپیکر پختونخوا اسمبلی کو اے پی سی میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ احمد کنڈی کا کہنا تھا، ”اسپیکر نے ان کا پیغام صوبائی حکومت کو پہنچایا تاہم وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور، جو پی ٹی آئی کے صوبائی صدر بھی ہیں، نے یہ دعوت مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ گورنرکا اختیارنہیں۔ وزیر اعلی کی حیثیت سے صرف میں ہی اے پی سی بلا سکتا ہوں۔‘‘

حکومتی ترجمان بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا تھا، ”یہ سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے علاوہ کچھ نہیں یہ پی ٹی آئی کے خلاف بیانیہ بنانے کی ناکام کوشش ہے۔ اے پی سی بلانا گورنر کا نہیں منتخب حکومت کا مینڈیٹ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنر وفاق کا نمائندہ ہے، صوبے کا چیف ایگزیکٹو بننے کی کوشیش کرنے کے بجائے انہیں وفاق سےصوبے کے بقایا جات وصول کرنے چاہیے۔‘‘

اجلاس میں شریک وفاق میں حکمران جماعت ن لیگ کے رہنما امیر مقام نے بھی اس موقع پر صوبائی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انکا کہنا تھا، “صوبائی حکومت کے پاس صوبے میں قیام امن اورمعاشی مشکلات کا حل نکالنے کیلئے وقت نہیں ہے۔ ہم صوبے کے مسائل کے حل کے لیے ایک ساتھ بیٹھے ہیں ہرسیاسی جماعت کا اپنا ایجنڈا اور منشور ہے لیکن جب صوبے کی بات آتی ہے، تو ہم سب ایک ہیں۔سیاسی اختلافات کو ایک طرف رکھ کرہم مسائل کا حل نکالنے کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما اور سابق صوبائی وزیر شوکت علی یوسفزئی کا کہنا تھا، ”ہم کیسے اس اے پی سی میں شرکت کرتے، جب سندھ میں پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی پر پابندی لگانے کی کوشیش کی ان لوگوں کی نیت ٹھیک نہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ گورنر کی اے پی سی صوبائی حکومت کی جانب سے ضلع کرم میں قیام امن کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی ایک کوشش ہے۔‘‘

خیبرپختونخوا کے سیاسی اور معاشی منظرنامے پرنظر رکھنے والے تجزیہ کار طاہرخان کا کہنا تھا کہ اختلاف برائے اختلاف کی سیاست سے صوبے کے عوام متا‍‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌‌ثر ہو رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا، ”وفاق کے پختونخوا کے وسائل اور بقایات نہ دینے کی وجہ یہاں کی سیاسی جماعتوں کے مابین اختلافات ہیں۔ اس صورتحال میں تنازعات ختم ہونے کے امکانات کم ہیں۔ ‘‘

ان کا مزید کہنا تھا، ”پختون معاشرے میں جرگے کی بڑی اہمیت ہے، ان تمام سیاسی جماعتوں کو وزیراعلیٰ کے پی اور پی ٹی آئی کے پاس جرگہ لے کر جانا چاہیے کہ وہ بھی اس کوشش کاحصہ بنتے۔ صوبے کے وسائل اور امن کے لیے سب جماعتوں کو ایک ہونا پڑے گا۔ این ایف سی کا ایوارڈ اور حقوق ایسے ہی نہیں ملیں گے۔‘‘

معروف سیاست دان اور سابق وفاقی وزیرداخلہ آفتاب احمد خان نے بھی پی ٹی آئی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا،” ملک بھر میں سیاسی عدم استحکام ہے اور ہمارے صوبے میں بدامنی اور دہشت گردی ایسے میں صوبائی حکومت کا اے پی سی سے بائیکاٹ اس صوبے کے ساتھ زیادتی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ صوبائی حکومت مرکز پر چڑھائی کرتی رہتی ہے اور اس کی سزا صوبے کے عوام کو مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا، ”مرکز کو صوبے کے حقوق دینے چاہیں، یہ صوبہ دہشتگردی کا شکار ہے اور یہاں کےعوام پر زیادہ وسائل خرچ کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘‘

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں