دمشق (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے پی/اے ایف پی/ڈی پی اے) حما پر قبضہ نے حیات تحرير الشام (ایچ ٹی ایس) کے انتہا پسند باغیوں اور ان کے اتحادیوں کو مرکزی شہر پر وہ اسٹریٹیجک کنٹرول دے دیا ہے، جو انہیں اب تک حاصل نہیں تھا۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے حیرت انگیز حملے کے بعد حلب پر قبضہ کر لیا تھا جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جاری شامی جنگ میں کبھی دمشق حکومت کے ہاتھوں سے نہیں نکلا تھا۔
عسکریت پسند تنظیم ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجولانی نے حما میں ‘فتح‘ کا اعلان کرتے ہوئے اعادہ کیا کہ ‘بدلہ نہیں لیا جائے گا’۔
اس سے قبل ایچ ٹی ایس کے جنگجوؤں اور ان کے اتحادیوں نے شدید جھڑپوں کے بعد حما کی مرکزی جیل پر قبضہ کرتے ہوئے متعدد قیدیوں کو رہا کروایا تھا جبکہ فوج نے اعلان کیا تھا کہ اس نے اپنے دستے شہر سے باہر تعینات کر دیے ہیں۔ حما میں 10 لاکھ افراد آباد ہیں اور یہ حلب کے جنوب میں 110 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
اب حمص کی جانب پیش قدمی کا امکان
سنچری انٹرنیشنل تھنک ٹینک کے فیلو آرون لُنڈ نے حما کے نقصان کو “شام کی حکومت کے لیے ایک بہت بڑا دھچکہ قرار دیا کیونکہ وہاں فوج کو باغیوں کو شکست دینی چاہیے تھی لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے”۔
انہوں نے کہا کہ ایچ ٹی ایس اب حمص کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گی، جہاں سے بہت سے رہائشی جمعرات کو پہلے ہی اپنے گھروں کو چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے ڈائریکٹر رامی عبدالرحمن نے اسد کی علوی اقلیتی برادری کے ارکان کے شہر سے بڑے پیمانے پر انخلاء کی اطلاع دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دسیوں ہزار افراد شام کے بحیرہ روم کے ساحل سے متصل علاقوں کی طرف جا رہے ہیں، جہاں شیعہ فرقے کی ایک شاخ، علوی، کے پیروکاروں کی اکثریت ہے۔
ایک سرکاری ملازم، جس نے اپنا نام صرف عباس بتایا، نے کہا “ہمیں ڈر اور فکر ہے کہ حما میں جو ہوا وہی حمص میں بھی دہرایا جائے گا۔” 33 سالہ نوجوان نے کہا، “ہمیں ڈر ہے کہ وہ (باغی) ہم سے بدلہ لیں گے۔”
حما پر باغیوں کے کنٹرول کے مضمرات
حما پر قبضہ دو بڑے شہروں محردا اور سلامیہ پر کنٹرول حاصل کرنے کے لحاظ سے بھی اہم ہے۔ محردا میں عیسائی اور سلامیہ میں اسماعیلی مسلم مذہبی اقلیت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔
آن لائن پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں، ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجولانی نے کہا کہ ان کے جنگجو حما میں داخل ہوئے تھے تاکہ “شام میں 40 سالوں سے لگے زخم کو صاف کردیں”۔ وہ 1982 میں اخوان المسلمین کے خلاف کریک ڈاؤن کا حوالہ دے رہے تھے، جس کے نتیجے میں ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔
ٹیلیگرام پر بعد میں انہوں نے اپنے عرفی نام کے بجائے پہلی بار اپنا اصلی نام احمد الشارع استعمال کرتے ہوئے ایک پیغام میں “حما کے لوگوں کو ان کی فتح پر مبارکباد” دی۔
یاد رہے کہ شام کے صدر بشار الاسد کے خلاف ایک پرامن بغاوت 2011 میں شروع ہوئی اور جلد ہی ایک خانہ جنگی میں بدل گئی تھی۔ اس تنازعے میں تقریباً پانچ لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ روس اور امریکہ کی مداخلت نے اس کو ایک ‘پراکسی وار‘ میں بدل دیا۔
ماضی میں صدر اسد نے اپنے حریفوں کو تباہ کرنے کے لیے روس اور ایران پر انحصار کیا ہے۔ لیکن کیونکہ دونوں اتحادی خود خطے میں نئے تنازعات سے نبردآزما ہیں اس لیے یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس طرح باغیوں کی اس پیش قدمی کو روک پائیں گے جو اب بشار الاسد کی حکومت کی بقا کے لیے براہ راست خطرہ بن چکے ہیں۔