99

شمالی غزہ پر تازہ اسرائیلی حملوں میں 30 افراد ہلاک، درجنوں زخمی

غزہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) غزہ میں حماس کے زیر انتظام شہری دفاع کی ایجنسی کا کہنا ہے کہ آج بروز جمعہ شمالی غزہ کے شہر بیت لاہیہ میں کمال عدوان ہسپتال کے قریب اسرائیلی حملوں میں 30 افراد ہلاک ہو گئے۔ سول ڈیفنس کے ترجمان محمود بسال نے کہا، ”جمعہ کی صبح سے ہی شمالی غزہ کی پٹی میں کمال عدوان ہسپتال کے ارد گرد مسلسل اسرائیلی گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 30 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔‘‘

ہسپتال کے ڈائریکٹر حسام ابو صفیہ نے روئٹرز کے زیر نگرانی آن لائن چیٹ روم کے ذریعے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی حملہ کمال عدوان کے مغربی اور شمالی اطراف میں فضائی حملوں کے ایک سلسلے کے ساتھ شروع ہوا تھا، جس دوران شدید فائرنگ بھی کی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ فضائی حملوں میں مارے گئے لوگوں کی لاشیں باہر سڑکوں پر پڑی ملیں۔

انہوں نے کہا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے فوجیوں نے تمام عملے، مریضوں اور بے گھر ہونے والے لوگوں کو اس کے صحن میں آنے کا حکم دیا اور گھنٹوں بعد اندر جانے کی اجازت دی۔ اسرائیلی فوج نے خبر رساں ادارے روئٹرزکی اس حوالے سے تبصرے کی درخواست کا فوری جواب نہیں دیا۔ تاہم اسرائیلی فوج حماس کے عسکریت پسندوں پر اپنی کارروائیوں کے لیے ہسپتالوں اور اسکولوں سمیت شہری عمارتوں کا استعمال کرنے کا الزام لگاتی آئی ہے۔ حماس ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے اسرائیل پر اندھا دھند بمباری اور حملوں کا الزام لگاتی ہے۔

کمال عدوان ہسپتال شمالی غزہ میں عسکریت پسندوں کے خلاف دوبارہ شروع ہونے والی اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی زد میں ہے۔ ابو صفیہ نے آن لائن پوسٹ کیے گئے ایک اور بیان میں کہا، “آج صبح، ہسپتال کے اطراف کی گلیوں میں سینکڑوں لاشوں اور زخمیوں کو دیکھ کر ہم حیران رہ گئے۔ ہسپتال کے اندر اور اس کے آس پاس کی صورتحال تباہ کن ہے۔ وہاں (مرنے والے) اور زخمی افراد کی ایک بڑی تعداد ہے، اور کوئی سرجن باقی نہیں بچا ہے۔‘‘

محصور غزہ کی پٹی تک میڈیا کی رسائی نہ ہونے کی وجہ سے روئٹرز آزادانہ طور پر ان کے اس بیان کی تصدیق نہیں کر سکا۔ غزہ کی وزارت صحت نے کہا کہ غزہ پٹی کے شمال میں واقع تین اہم ہسپتال بمشکل کام کر رہے ہیں اور اکتوبر میں اسرائیل کی جانب سے بیت لاہیہ اور اس کے نزدیک بیت حنون اور جبالیہ کے علاقوں میں اسرائیلی ٹینکوں کے دوبارہ داخلے کے بعد سے بار بار حملے کیے جا رہے ہیں۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت نے اسرائیلی فوج پر کمال عدوان ہسپتال کے ”اندر اور اس کے ارد گرد ہر طرح کے قتل اور تشدد‘‘ کے ذریعے ”جنگی جرم‘‘ کا ارتکاب کرنے کا الزام لگایا۔ اس وزارت نے اپنے ایک بیان میں مزید کہا، ”اندر رہ جانے والے زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے اور انہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔‘‘

وزارت نے کہا کہ جنگ سے تباہ ہونے والے علاقے میں 37 ہسپتالوں اور کلینکوں میں سے صرف نصف کام کر رہے ہیں لیکن ان میں ضروری سامان، افرادی قوت اور طبی اور ایندھن کی فراہمی کی کمی ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جمعہ کے روز کہا کہ اسرائیلی فورسز نے جمعرات کو علی الصبح کمال عدوان ہسپتال پر بظاہر ہسپتال کے عملے کو پیشگی اطلاع دیے بغیر بمباری کی تھی۔ ڈبلیو ایچ او کے ترجمان ریک پیپرکورن نے ویڈیو لنک کے ذریعے جنیوا میں بریفنگ میں بتایا کہ یہ انتہائی تشویشناک ہے اور کبھی نہیں ہونا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہسپتال اب ”کم سے کم سطح پر فعال‘‘ ہے۔

دریں اثناء غزہ کے لیے امداد کے نگران اسرائیلی ادارے نے کہا ہے کہ اس نے بین الاقوامی امدادی ایجنسیوں کے تعاون سے بیت حنون میں خوراک کے ہزاروں پیکٹ اور آٹے کی بوریوں کی ترسیل میں سہولت فراہم کی ہے تاکہ اسے آبادی میں تقسیم کیا جا سکے۔

حماس، جسے یورپی یونین نے دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے، کے جنگجوؤں کی جانب سے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیلی سرزمین پر کیے گئے لرزہ خیز حملوں کے بعد اسرائیلی دفاعی افواج نے حماس کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی شروع کی تھی۔

اس مسلح تنازعہ کو تقریبا چودہ ماہ کا وقت ہو چکا ہے، جس میں 1,200 افراد ہلاک اور 250 سے زائد یرغمال بنا لیے گئے تھے۔ غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کے بعد سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائی میں 44,500 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ہزاروں کے مزید ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں