دمشق (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) شام کے وسطی شہر حمص سے ہزاروں لوگ فرار ہو رہے ہیں، جو کہ ملک کا تیسرا سب سے بڑا شہر ہے، کیونکہ باغیوں نے جمعے کے روز دو مضافاتی قصبوں پر قبضہ کر لیا، اور وہ دارالحکومت دمشق پر قبضے کے لیے تیاری کر رہے ہیں۔
شام کی صورت حال حیران کن انداز میں تبدیل ہو رہی ہے۔ باغیوں نے ایک ہفتہ قبل اپنی پیش رفت کا آغاز کیا تھا اور شمال کے ایک اہم شہر حلب پر قابض ہو گئے تھے۔ انہیں حلب میں بہت کم مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔
حلب کے بعد باغی مسلسل پیش قدمی کر رہے ہیں اور سرکاری فورسز پیچھے ہٹتی جا رہی ہیں۔
ایک دن پہلے، جنگجوؤں نے شام کے چوتھے بڑے شہر حما پر قبضہ کیا تھا، جس پر ردعمل میں سرکاری فوج نے کہا تھا کہ وہ شہر کے اندر لڑائی سے بچنے اور شہریوں کی جان بچانے کے لیے پیچھے ہٹ گئی تھی۔
اس بغاوت کی قیادت جہادی حیات تحریر الشام گروپ،یا ایچ ٹی ایس کر رہا ہے۔ اس نے حمص اور دارالحکومت دمشق کی طرف مارچ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
حمص صدر بشارالاسد کے حامیوں کا شہر ہے۔ یہاں بڑی تعداد میں علوی فرقے کے لوگ آباد ہیں۔ صدر اسد بھی اسی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور اس شہر کو اسد کی حمایت کے مرکز کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تاہم جمعے کے روز نظر آنے والے مناظر بہت مختلف تھے۔ شہر سے نکلنے والی شاہراہوں اور سڑکوں پر لوگوں سے بھری ہوئی گاڑیوں کا رش تھا اور اکثر مقامات پر ٹریفک جام تھی۔ یہ لوگ باغیوں کے قابض ہونے کے خدشے کے پیش نظر اپنا گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف جا رہے تھے۔
انٹرنیٹ پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں لوگوں کو پریشانی کے عالم میں شہر سے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اگر حمص سرکاری فوجوں کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو یہ صدر اسد کے لیے ایک بڑا جھٹکا ہو گا۔
اس شہر کے کچھ حصے 2014 تک باغیوں کے کنٹرول میں رہ چکے ہیں ۔حمص رقبے کے لحاظ سے شام کا سب سے بڑا صوبہ ہے جس کی سرحدیں لبنان، عراق اور اردن سے ملتی ہیں۔
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے جمعے کے روز کہا کہ جنوب میں باغی اب درعا کے 90 فیصد سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں تاہم الصنمين کا علاقہ اب بھی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔
سٹریٹجک اور علامتی اہمیت کا حامل درعا شہر صوبے کا دارالحکومت ہے جو اردن کی سرحد پر اہم گزرگاہوں کے قریب ہے اور یہیں سے 2011 میں جمہوریت نواز مظاہرے شروع ہوئے تھے۔
اردن کی وزارت داخلہ نے کہا کہ اس نے شام کے ساتھ اپنی سرحد ’جنوبی شام میں سکیورٹی کی صورتحال کی وجہ سے‘ بند کر دی ہے۔
دوسری جانب کرد زیرقیادت فورسز نے دیر الزور شہر پر قبضہ کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے جو ملک کے مشرق میں وسیع ریگستان میں حکومت کا اہم گڑھ ہے۔
شام کی حکومت پر متعدد اطراف سے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ حکومت مخالف گروپوں کا کہنا ہے کہ مظاہرین نے جنوبی صوبے سویدا میں سیکیورٹی فورسز کی چوکیوں اور فوج کی پوزیشنوں پر دھاوا بولا ہے۔ ان گروپوں کو امریکہ کی حمایت یافتہ کرد فورسز کی حمایت حاصل ہے اور ان کا شام کے مشرقی اور شمال مشرقی علاقوں پر قبضہ ہے۔
باغیوں کی پیش رفت کے بعد کئی دوسرے حکومت مخالف گروپوں نے بھی سرکاری کنٹرول کے علاقوں کی جانب پاؤں پھیلانا شروع کر دیے ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اور باغی گروپ سیریئن نیشنل آرمی جسے ترکیہ کی حمایت حاصل ہے، سے منسلک جنگجو بھی ایچ ٹی ایس کے ساتھ شامل ہیں۔
ایچ ٹی ایس کے رہنما ابو محمد الجولانی نے جمعرات کو سی این این چینل پر ایک خصوصی انٹرویو میں کہا ہے کہ اسد کی حکومت گرنے کے قریب ہے۔ وہ اب تک صرف روس اور ایران کے سہارے کھڑی تھی۔
برطانیہ میں موجود شام کے آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ باغیوں نے جمعے کے روز حمص کے مضافاتی قصبوں راستان اور تلبہسہ پر قبضہ کر لیا ہے اور حمص سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔
آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمنٰ نے کہا ہے کہ حمص کی لڑائی یہ فیصلہ کرے گی کہ شام پر حکومت کون کرے گا۔
آبزرویٹری نے یہ بھی کہا ہے کہ شامی فوجی حمص سے جا چکے ہیں۔ لیکن فوج نے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ فوجی شہر میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کر رہے ہیں اور کسی بھی حملے کو پسپا کرنے کے لیے تیار ہیں۔
باغیوں کے خلاف اسد حکومت کے لڑنے کی صلاحیت کے بارے میں اہم سوال یہ ہے کہ روس اب اس کی کتنی مدد کر سکتا ہے کیونکہ شام کی سرکاری فورسز کو روس کی حمایت حاصل رہی ہے۔ اب وہ خود یوکرین کی جنگ میں بندھا ہوا ہے۔
شام میں روسی سفارت خانے نے شام میں روسی شہریوں کو ملک کی فوجی اور سیاسی صورت حال کے پیش نظر جانے کا مشورہ دیا ہے۔