198

شام کے صدر بشار الاسد ملک چھوڑ کر فرار، دمشق کے اطراف میں شدید لڑائی جاری

دمشق (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی) شام کے دارالحکومت دمشق پر اس وقت خوف اور غیریقینی کے سائے منڈلا رہے ہیں، باغی فورسز قریب پہنچتی جا رہی ہیں اور ایسے میں لوگوں کو نہیں معلوم کہ وہاں آخر ہو کیا رہا ہے۔

دمشق کے نواحی علاقوں میں اسد خاندان کی طاقت کی نشانی سمجھی جانے والی علامات کو مسمار کر دیا گیا ہے۔ ملک کی وزارتِ داخلہ کا کہنا ہے کہ انھوں نے دارالحکومت کے اطراف میں ’آہنی دیوار‘ کھڑی کردی ہے۔

لیکن اب تک سرکاری افواج دیگر شہروں اور قصبوں کا دفاع کرنے میں ناکام ہوئی ہیں اور کئی علاقے متعدد باغی گروہوں کے کنٹرول میں جا چکے ہیں۔

دوسری جانب صدر بشار الاسد کہاں ہیں اس حوالے سے بھی افواہیں گردش کر رہی ہیں۔ لوگ ملک میں آنے اور جانے والی پروازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں تاکہ یہ جان سکیں کہ کہیں ملک کے صدر دمشق چھوڑ کر تو نہیں چلے گئے۔

تاہم ان صدر کے دفتر سے جاری بیان میں بشار الاسد کے دمشق چھوڑنے کی خبروں کی تردید کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ وہ دارالحکومت میں ہی اپنے کام میں مصروف ہیں۔ تاہم صدر بشار الاسد ابھی تک کہیں نظر نہیں آئے ہیں۔

شامی باغی حمص میں داخل اور شدید لڑائی جاری

شامی باغی ملک کے اہم شہر حمص میں داخل ہو گئے ہیں اور اس وقت شدید لڑائی جاری ہے۔

یہ باغی اس وقت دمشق کے شمال اور جنوب کی طرف سے دارالحکومت دمشق کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق حمص شہر میں داخل ہو چکی ہیں۔

دوسری طرف شام کے صدر بشاالاسد کے دفتر نے دارالخلافہ سے فرار ہونے کی خبروں کی تردید کی ہے۔ ان کے دفتر سے جاری ایک بیان میں صدر بشارالاسد کے فرار کی خبروں کو افوا اور جھوٹی خبر ہے کیونکہ صدر بشارالاسد دمشق میں موجود اپنے کام میں مگن میں ہیں۔

امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’شام میں اس وقت بری صورتحال ہے مگر وہ ہمارے دوست نہیں ہیں۔‘

باغی اس وقت کہاں کہاں قابض ہیں؟

جنوبی شام میں باغی فورسز نے ملک کے اہم علاقے درعا کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سنہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک نے جنم لیا تھا۔

شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق ’مقامی گروہ‘ سرکاری فوج کے ساتھ شدید لڑائیوں کے بعد علاقے میں متعدد عسکری مقامات کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق باغیوں سے قریب ذرائع نے انھیں بتایا کہ جنگجوؤں اور شامی فوج کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں کو علاقے سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ شام کا دارالحکومت اس علاقے سے صرف 100 کلومیٹر دور ہے۔

شامی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی علاقوں میں حمص شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اطراف میں فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔

دمشق کے گرد قائم ’مضبوط‘ سکیورٹی حصار کو کوئی عبور نہیں کرسکتا، شامی وزیرِ داخلہ

شام میں باغی جنگجو ملک کے اہم شہر حمص میں داخل ہو چکے ہیں اور اس وقت وہاں ان کے اور سرکاری فوج کے درمیان شدید لڑائیاں جاری ہیں۔

ایسے میں یہ اطلاعات بھی گردش کر رہی ہیں کہ باغی جلد ہی ملک کے دارالحکومت دمشق میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ شام کے وزیرِ داخلہ محمد الرحمان کا کہنا ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز نے دمشق کے گرد ’بہت مضبوط‘ حصار بنا رکھا اور کوئی بھی اسے پار نہیں کر پائے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شام کے سرکاری ٹی وی چینل کے ذریعے بات کرتے ہوئے وزیرِ داخلہ محمد الرحمان کا کہنا تھا کہ ’دمشق اور اس کے نواحی علاقوں میں انتہائی مضبوط سکیورٹی اور عسکری حصار بنایا گیا ہے اور کوئی بھی اس دفاعی لائن اور فوج کو عبور کرکے کسی عمارت میں داخل نہیں ہوسکتا۔‘

جنوبی شام میں باغی فورسز نے ملک کے اہم علاقے درعا کے بیشتر علاقوں کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں سنہ 2011 میں صدر بشار الاسد کے خلاف احتجاجی تحریک نے جنم لیا تھا۔

شام میں باغی ’انسانہ مذبح خانہ‘ کے نام سے مشہور صیدنایا جیل کے قریب پہنچ گئے

طلاعات کے مطابق شام میں باغی ملک کے بدنام زمانہ جیل صیدنایا کے قریب پہنچ گئے ہیں جہاں صدر بشار الاسد کے مخالفین پر مبینہ طور پر بدترین تشدد اور انھیں موت کے گھاٹ اُتارا جاتا رہا ہے، ممکن ہے کہ وہاں اب بھی ہزاروں افراد قید ہوں۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر میں باغی جنگجوؤں کو جیل کے قریب دیکھا جا سکتا ہے جو کہ شامی دارالحکومت دمشق کے شمال میں 30 کلومیٹر دور واقع ہے۔

باغیوں کے حامی خبر رساں اداروں کے مطابق شامی فوج کی 127ویں بریگیڈ کو صیدنایا جیل کے دفاع پر مامور کیا گیا تھا لیکن اب وہ بھی علاقہ چھوڑ کر جا چکی ہے۔

ٹیلی گرام پر باغیوں کے حامی ایک چینل پر موجود پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ صیدنایا ’ہماری آنکھوں کے سامنے ہے اور خدا نے چاہا تو قیدیوں کو جلد ہی آزاد کروالیا جائے گا۔‘

ٹیلی گرام پر ایک اور پوسٹ میں کہا گیا ہے کہ ’انسانی مذبح خانہ مجاہدین کی نگاہوں کے سامنے ہے۔‘

سنہ 2017 میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے سب سے پہلے صیدنایا جیل کے لیے ’انسانی مذبح خانہ‘ جیسے الفاظ استعمال کیے تھے کیونکہ ایسے الزامات سامنے آئے تھے کہ شام میں خانہ جنگی کے دوران اس جیل میں پانچ برسوں کے دوران پانچ ہزار سے 13 ہزار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کا الزام ہے کہ صیدنایا جیل میں ہونے والے اقدامات کی ہدایات شامی حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں نے جاری کی تھیں۔

شامی حکومت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے دعوے کو ’بے بنیاد‘ اور ’حقیقت سے عاری‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ جیل میں تمام سزائیں قانونی عمل کے تحت دی گئیں تھیں۔

شام کی جنگ پر نظر رکھنے والے ادارے سیرین آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس کے مطابق ’مقامی گروہ‘ سرکاری فوج کے ساتھ شدید لڑائیوں کے بعد علاقے میں متعدد عسکری مقامات کا کنٹرول سنبھالنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق باغیوں سے قریب ذرائع نے انھیں بتایا کہ جنگجوؤں اور شامی فوج کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں فوجی اہلکاروں کو علاقے سے نکلنے کا محفوظ راستہ دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ شام کا دارالحکومت اس علاقے سے صرف 100 کلومیٹر دور ہے۔

شامی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی علاقوں میں حمص شہر کو محفوظ رکھنے کے لیے اس کے اطراف میں فضائی کارروائیاں کی جا رہی ہیں۔ سنہ 2017 میں انھوں اس تںظیم کا نام
تبدیل کر کے ہیئت تحریر شام رکھ دیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں