دمشق (ڈیلی اردو/بی بی سی) شام کی سول ڈیفنس فورس کا کہنا ہے وہ دمشق کی بدنامِ زمانہ ’صیدنایا جیل‘ کی زیرِ زمین خفیہ کوٹھڑیوں میں قیدیوں کے پھنسے ہونے کی اطلاعات کی تحقیقات کر رہی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر جاری اپنے بیان میں سول ڈیفنس فورس نے کہا ہے کہ اس ضمن میں پانچ ایمرجنسی ٹیمیں تشکیل دے کر جیل میں تعینات کر دی گئی ہیں۔ ان ٹیموں کی مدد ایک گائیڈ کر رہا ہے جو جیل کے خفیہ نقشے سے بخوبی واقف ہے۔
باغیوں کی جانب سے دمشق کا کنٹرول حاصل کیے جانے کے بعد صیدنایا جیل میں قید لوگوں کو آزاد کر دیا گیا تھا۔
دمشق میں حکام کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ جیل سے قیدیوں کی رہائی کے لیے کوششیں جاری ہیں۔ حکام کا مزید کہنا ہے کہ قیدیوں میں کچھ وینٹیلیشن یعنی تازہ ہوا اور آکسیجن کی کمی کی وجہ سے زیرِ زمین بنائی گئی کوٹھڑیوں میں ’دم گھٹنے سے ہلاک ہو سکتے ہیں۔‘
شام میں بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سابق فوجیوں اور صیدنایا جیل میں تعینات اہلکاروں سے سوشل میڈیا کی مدد سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ باغی فورسز کو زیرِ زمین کوٹھڑیوں کے دروازوں کو کھولنے اور وہاں قید لوگوں کی جان بچانے کے لیے دروازوں پر لگے خفیہ کوڈز فراہم کرنے میں مدد کریں۔
باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ صیدنایا جیل کے زیرِ زمین اُن عقوبت خانوں کے دروازے کھولنے میں ناکام رہے ہیں جہاں موجود ’ایک لاکھ سے زائد قیدیوں کو سی سی ٹی وی کیمروں اور مانیٹر کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔
مسلح دھڑوں کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد شام کی بدنام زمانہ صیدنایا جیل سے رہا ہونے والے قیدیوں میں سے ایک نے خدا کا شُکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ ’اب تو ہم دمشق کے وسط میں زندہ اور آزاد ہیں۔ مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ 54 دیگر لوگوں کے ساتھ میری پھانسی آج طے کی گئی تھی، اگر اسد کی حکومت ختم نہ ہوتی تو ہم زندہ نہ ہوتے۔‘
صیدنایا جیل سے متعلق سوشل میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ جیل کی بالائی منزلوں پر موجود کوٹھڑیوں سے قیدیوں کو نکلتے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم کُچھ قیدیوں کے اہلِخانہ بین الاقوامی تنظیموں اور ماہرین سے اپیل کر رہے ہیں کہ وہ خفیہ تہہ خانے کھولیں جہاں اب بھی ہزاروں قیدی قید ہیں مگر ان تہہ خانوں کے کوڈز تک کسی کو دسترس نہیں ہے۔
یاد رہے کہ دمشق کی صیدنایا جیل بشارالاسد اور اُن کے والد حافظ الاسد کے دور میں ملک کی سب سے زیادہ مضبوط فوجی جیلوں میں سے ایک سمجھی جاتی رہی ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہاں ہونے والی خونریز ہلاکتوں اور تشدد کے تناظر میں اس جیل کو ’دی ریڈ پریزن‘ یعنی ’سُرخ جیل‘ کا لقب دیا گیا۔
انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹس اور صیدنایا جیل کے قیدیوں اور لاپتہ افراد کی ایک ایسوسی ایشن کی جانب سے کی جانے والی دستاویزی تحقیقات کے مطابق بشار الاسد کے دور حکومت میں ہفتے میں دو بار باقاعدگی سے اس جیل میں قیدیوں کو پھانسی دی جاتی تھی۔ حراست کے دوران بہت زیادہ تشدد کی مدد سے قیدیوں کی ہلاکت بھی یہاں کوئی انہونی بات نہیں تھی۔
’انسانی مذبح خانہ‘
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے چند سال قبل اس جیل کو ’انسانی مذبح خانہ‘ اور ایک ایسی جیل قرار دیا تھا جہاں ’شامی ریاست خاموشی سے اپنے مخالفین کو ذبح کر رہی ہے۔‘
صیدنایا جیل کے قیدیوں اور شام میں لاپتہ افراد کی ایسوسی ایشن کے مطابق یہ جگہ دنیا ’بس ایک ہی ہے‘ جس کا نام ہی شامیوں میں دہشت پھیلانے کے مترادف ہے۔ اس جیل میں بہت سے شامی باشندوں نے اپنے پیاروں اور اہلخانہ کو کھویا ہے جس کا وہ اظہار کرتے رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق دارالحکومت دمشق سے 30 کلومیٹر شمال میں واقع پہاڑی قصبے صیدنایا میدان کے آغاز میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر سنہ 1987 میں تعمیر کی گئی صیدنایا جیل 1.4 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔
طویل تنہائی اور پھر جیل سے نکلنے کا خوف
اس جیل سے متعلقہ سامنے آنے والی ایک اور ویڈیو میں ایک عسکریت پسند نے جیل کی کوٹھریوں کے اندر لگے سکیورٹی کیمروں میں سے ایک کو دکھاتے ہوئے کہا کہ ’اندر موجود قیدی نہیں جانتے کہ باہر کیا ہو رہا ہے۔‘ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اس جیل میں موجود لوگ دنیا سے کتنے الگ تھلگ ہوتے ہیں۔
قیدیوں کی رہائی کے دوران مسلح افراد چند کوٹھڑیوں کے تالے توڑتے بھی دکھائی دیے اور اس کام کا آغاز انھوں نے خواتین قیدیوں کی بیرکوں سے کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ سیل کھولنے کے بعد خواتین قیدی خوف اور گھبراہٹ کے عالم میں اس کشمکش کا شکار دکھائی دیں کہ آیا انھیں کوٹھڑی کا دروازہ کُھل جانے کے باوجود وہاں سے نکل جانا چاہیے یا نہیں۔
اس کے بعد مسلح افراد خواتین قیدیوں کو یقین دلاتے ہیں کہ ’ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، اسد کی حکومت ختم ہو چُکی ہے اور اب آپ آزاد ہیں۔‘ قیدی ہچکچاتے ہوئے پریشانی کے عالم میں وہاں سے نکلنے لگے اور اپنے شناختی دستاویزات اور قیمتی سامان کے بارے میں پوچھنے لگے جو انھوں نے جیل انتظامیہ کے پاس چھوڑے تھے۔ اس کے بعد اسلحہ بردار افراد نے ان سے کہا ’جاؤ اور اپنا قیمتی سامان لے لو لیکن آپ کو شناختی کارڈ کی ضرورت نہیں ہو گی اور کوئی بھی آپ کو کہیں بھی جانے سے نہیں روکے گا۔‘
قیدیوں میں سے ایک نے ایک باغی سے سوال کیا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ تو اس پر اُن کا جواب تھا کہ ’تم جہاں چاہو جاؤ‘ اور ان سے کہا کہ ’آزادی اور فتح کا جشن منانے کے لیے اللہ اکبر کہو۔‘
ایک قیدی کی ماں کا خط
ٹوئٹر صارفین کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک خاتون کا پیغام بڑے پیمانے پر شیئر ہو رہا ہے جس میں وہ جنگجوؤں کو مخاطب کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’جب آپ صیدنایا جیل پر آپ قبضہ کر لیں اور قیدیوں کا آزاد کروا لیں تو براہ مہربانی انھیں (بشار الاسد کے حامی جیل حکمرانوں کو) فرار نہ ہونے دیں اور نہ ہی ان کے ساتھ مذاکرات کریں۔ ان قصابوں نے میرے 20 سالہ بیٹے کے جسم کو مسخ کر دیا، اسے تشدد کا نشانہ بنایا، اس کی پیشانی کو سگریٹ سے جلاتے رہے، اس کی خوبصورت آنکھیں نکال دیں اور آخر کار ان ظالموں نے میرے بچے کی جان لے لی۔ براہ مہربانی انھیں معاف نہ کریں۔ میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتی ہوں۔‘
صیدنایا جیل میں موجود قیدیوں سے متعلق قیدیوں اور لاپتہ افراد کی ایسوسی ایشن کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ سنہ 2012 سے 2022 کے دوران جیل میں 30 سے 35 ہزار کے درمیان قیدیوں کو براہ راست پھانسی دے کر یا تشدد کا نشانہ بنا کر یا طبی دیکھ بھال کی کمی اور فاقہ کشی کی وجہ سے موت کے منہ میں دھکیل دیا گیا۔
تنظیم کا دعویٰ ہے کہ بشار الاسد کے دور حکومت میں صیدنایا جیل میں سنہ 2011 سے 2015 کا دور انتہائی تشویشناک تھا کہ جب جیل میں قیدیوں کی تعداد میں ایک بڑی کمی ریکارڈ کی گئی اور اس کی وجہ یہاں بڑے پیمانے پر ہونے والی قیدیوں کی ہلاکتیں تھیں۔
قیدیوں اور لاپتہ افراد کی ایسوسی ایشن کی جانب سے یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہاں قیدیوں کو سزائے موت کے بعد اجتماعی قبروں میں دفن کیا جاتا رہا ہے۔
سب سے کم عمر قیدی
قیدیوں کی رہائی کے دوران سب سے زیادہ چونکا دینے والا منظر وہ تھا جب ایک تین سال سے بھی کم عمر کا ننّھا بچہ اپنی کوٹھڑی کا دروازہ کُھلنے کے بعد باہر نکلا۔ باہر نکلنے پر وہ حیرت سے کھڑا ہو کر یہاں وہاں بس یہ دیکھ رہا تھا کہ یہ سب آخر ہو کیا رہا ہے؟ اتنے میں ایک مسلح شخص پوچھتا ہے کہ ’یہ بچہ کون ہے؟‘ پھر سیل سے ایک خاتون نکلیں جو بظاہر اسی بچے کی والدہ لگ رہی تھیں اور انھوں نے بچے کا ہاتھ فوراً سے تھام لیا۔
ٹوئٹر صارفین نے اس بچے کو ’تاریخ کا سب سے کم عمر قیدی‘ قرار دیا اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ایسا صرف صیدنایا جیل میں ہوتا ہے، جسے بشار الاسد کی حکومت چلاتی رہی۔‘
قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے مطابق اسد حکومت نے اس جیل میں قیدیوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا۔ قیدیوں پر منظم انداز میں تشدد کیا گیا اور خوراک کی کمی اور صحت کی سہولیات سے محروم رکھا گیا۔
سفید عمارت اور سرخ عمارت
یہ جیل دو عمارتوں پر مشتمل ہے۔ جیل کی پرانی عمارت کا رنگ سُرخ ہے اور یہ حکومت مخالف سیاسی شخصیات کے لیے مخصوص تھی۔ تاہم دوسری یعنی قدرے نئی عمارت جسے سفید عمارت کے نام سے جانا جاتا ہے میں فوجی جرائم میں ملوث افراد اور بدعنوانی کے جرائم میں ملوث قیدیوں کے لیے مخصوص تھی۔
کچھ لوگوں کا یہ ماننا ہے کہ نئی یعنی سفید عمارت کے قیدی حکومت کے حامی تھے کیونکہ اُن میں سے اکثریت فوجی اہلکاروں کی تھی، تاہم ان پر بدعنوانی، چوری یا قتل کا الزام تھا اس لیے انھیں اس عمارت میں رکھا گیا تھا۔ تاہم اتفاق سے جب اسد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا تو جیل کی سفید عمارت میں قید افراد کو پہلے رہا کرنا شروع کر دیا گیا تاہم اس سب کے بیچ حزب اختلاف اور سیاسی نظریات رکھنے والوں کے لیے مخصوص سرخ عمارت تک نہیں پہنچا جا سکا۔ ایسے میں کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ فوجداری مقدمات کے قیدیوں کو رہا کرنا ایک غلطی تھی۔
اسد حکومت کے خاتمے کے دس گھنٹے بعد حزب اختلاف کے قریبی صحافیوں نے اعلان کیا کہ وہ سرخ عمارت کے سیلوں میں قیدیوں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ یہ سیل زیادہ مضبوط ہیں اور ان میں سے کچھ زیر زمین واقع ہیں۔
عسکریت پسند سُرخ عمارت میں قیدیوں کو رہا کرنے کے مناظر میں نظر آئے جبکہ مناظر کی فلم بندی کرنے والا شخص جیل میں اپنے والد کو تلاش کر رہا تھا اور ان سے پوچھ رہا تھا کہ کیا انھوں نے اُن کے والد کو دیکھا۔
ہوا کیا ہے، کُچھ تو بتاؤ؟
صیدنایا جیل شام کی وزارت دفاع کے ماتحت تھی اور وزارت انصاف یا شہری عدالتی حکام کو اس پر کوئی اختیار حاصل نہیں تھا۔ صیدنایا جیل کے قیدیوں اور لاپتہ افراد کی ایسوسی ایشن کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے مطابق اس کی حفاظت فوج، ملٹری پولیس اور ملٹری انٹیلیجنس ڈویژن پر مشتمل تین سکیورٹی سطحوں پر کی جاتی تھی۔
شاید جیل کے اندر قید اور بیرونی دُنیا سے بے خبر لوگوں کی تنہائی اور تکلیف کا اندازہ کئی سالوں سے اس جیل میں قید اور تشدد سے چور اور کمزور جسم کے ساتھ اس جیل سے نکلنے والے اُس ایک فرد کی کیفیت دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے کہ جو رہائی کے بعد کیمرے والے سے سوال کرتا ہے ’آخر ہوا کیا ہے کُچھ تو بتاؤ؟‘ جس پر اسے سُننے کو ملتا ہے کہ ’اسد کی حکومت کا خاتمہ ہو چُکا ہے۔‘ یہ سُنتے ہی وہ قیدی ’اللہ ہو اکبر‘ کہہ کر بھاگ پڑتا ہے۔