اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان میں صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کا شمار پاکستان کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے جسے غیرمنقسم ہندوستان میں برطانوی دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا۔ اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی اور اس ساتھ ہی مقامی قبائل میں تنازعات کا بھی آغاز ہوا۔ اگرچہ خیبرپختونخوا کے ضلع کُرم میں مقامی قبائل کے درمیان تنازعات کی تاریخ ایک صدی سے زیادہ پرانی ہے لیکن رواں برس جولائی سے یہ علاقہ وقفے وقفے سے ہونے والی خونریز جھڑپوں اور فرقہ وارانہ حملوں کی وجہ سے مسلسل خبروں میں رہا ہے۔
صرف سنہ 2024 میں ضلع کرم کے مختلف علاقوں میں پیش آئے پرتشدد واقعات میں 200 سے زیادہ افراد مارے جا چکے ہیں جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
امن و امان کی یہ خراب صورتحال مزید گمبھیر ہوتی ہوئی اُس وقت نظر آتی ہے جب حکام کی جانب سے اس تنازع میں ایسی شدت پسند تنظیموں اور افراد کے ملوث ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں جو پاکستان سے باہر کارروائیوں میں ملوث رہے ہیں۔
کرّم میں مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے اور پھر قبائلی لشکر کی جانب سے متعدد مقامات پر لشکر کشی اور آتشزنی کے واقعات کے بعد جہاں پاکستان کے وزیرِ دفاع خواجہ آصف یہ کہتے نظر آئے کہ ’یہ فرقہ وارانہ جھگڑا پاڑہ چنار سے باہر آ رہا ہے، جس کی افغانستان سے باقاعدہ پشت پناہی ہو رہی ہے اور طالبان سرحد پار کر رہے ہیں۔‘
وہیں سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز بھی سامنے آئیں جن میں مبینہ طور پر ایک چیک پوسٹ پر پاکستان کے پرچم کی جگہ کالعدم تنظیم زینبیون کا جھنڈا نصب کیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ ضلع کُرم میں 21 نومبر کو گاڑیوں کے قافلے پر ہوئے ایک حملے میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں سے بیشتر کا تعلق شیعہ مکتبہِ فکر سے تھا۔ اس سے قبل اکتوبر میں کُرم میں سُنّی قبائل سے تعلق رکھنے والے مسافروں کے قافلے پر بھی حملہ کیا گیا تھا، جس میں حکام کے مطابق 16 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
21 نومبر کو پیش آئے واقعے کے اگلے روز مسلح لشکر نے ضلع کُرم میں سُنی آبادی والے علاقے بگن پر حملہ کیا جہاں سینکڑوں دُکانیں اور مکانات نظرِ آتش کر دیے گئے۔ حکام کے مطابق اس حملے میں 32 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سنی اور شیعہ شدت پسندوں کی کرم میں موجودگی پر حکام کیا کہتے ہیں؟
بی بی سی نے کرم کی لڑائی میں شدت پسند عناصر کے کردار کے بارے میں جاننے کے لیے جب سکیورٹی حکام سے بات کی تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ فریقین کی صفوں میں شدت پسند تنظیموں کے ایسے جنگجو بھی شامل ہیں جو کہ غیرملکی تنازعات کا بھی حصہ رہے ہیں۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ کُرم میں جاری تنازع میں کالعدم تنظیموں زینبیون، تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، داعش، لشکرِ جھنگوی، سپاہ صحابہ اور سپاہ محمد سے جُڑے عناصر بھی ملوث ہیں۔
ماضی میں پاکستان کے مختلف حصوں میں تعینات رہنے والے اور شدت پسندوں کے خلاف متعدد کارروائیوں میں حصہ لینے والے ایک حاضرِ سروس سکیورٹی افسر نے ضلع کُرم کی صورتحال کے حوالے سے بی بی سی اردو سے کو بتایا کہ ’شام، عراق اور افغانستان میں تنازعات کے سبب مقامی سطح (کرم میں) پر بھی تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔‘
حاضرِ سروس سکیورٹی اہلکار نے بی بی سی سے ان کا نام نہ ظاہر کرنے کی درخواست کی ہے کیونکہ انھیں میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’نہ صرف ان (غیرملکی) تنازعات میں حصہ لینے والے جنگجوؤں نے کُرم میں اپنی مہارت دکھائی ہے بلکہ انھوں نے جدید اسلحے کا استعمال بھی کر کے دکھایا ہے۔‘
کیا طالبان اِن فسادات میں ملوث ہیں؟
ضلع کُرم سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے علاقوں میں کالعدم تنظیموں سے جُڑے افراد کی موجودگی کی تصدیق تو کرتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ پرتشدد واقعات کا الزام بھی ایک دوسرے پر لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ضلع کُرم کے علاقے باگزئی سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے محمد ریاض نے بی بی سی اُردو کو بتایا کہ وسطی کُرم میں ٹی ٹی پی کی موجودگی ضرور ہے لیکن ’یہ بہت محدود ہے۔‘ تاہم محمد ریاض نے دعویٰ کیا کہ شیعہ علاقوں سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ لشکر کشی کرتے ہیں ’اُن کو کون روکے گا؟‘
بگن کے قریب واقع ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے معلم بھی اپنے علاقوں میں کالعدم تنظیموں کے حامیوں کی موجودگی کی تصدیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’خود کو زینبیون اور طالبان سے منسوب کرنے والے لوگ اسلام کی مقدس ہستیوں کے لیے ہتک آمیز زبان استعمال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو گالیاں بھی دیتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ان چیزوں کو دیکھ کر پھر مقامی لوگ بھی مشتعل ہو جاتے ہیں اور اُن کے خیال میں اکتوبر میں کونج علیزئی میں مسافر ویگن پر اور نومبر میں لوئر کُرم کے علاقوں بگن اور اوچت میں مسافر بسوں پر ہونے والے حملوں کی وجہ بھی یہی ہے۔
اُن کے مطابق لوئر اور وسطی کرم میں فوجی آپریشن ہو چکے ہیں اور ایسے ہی آپریشن کی ضرورت اپر کُرم میں بھی ہے۔
حالیہ عرصے میں کُرم میں تعینات رہنے والے ایک اعلیٰ افسر نے افغانستان کے سرحدی علاقوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان (سُنّی قبائل) کی جانب سے لڑنے کے لیے بھی اُدھر سے لوگ اِدھر آ جاتے ہیں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’اُدھر سے آنے والے لوگوں کی آمد سے فریقین کی طاقت پر فرق تو پڑتا ہے لیکن یہاں یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ جو سارا علاقہ ہے، اس علاقے میں رہنا والا ہر بندہ فائر بھی کر سکتا ہے اور ہر قسم کا اسلحہ چلانا جانتا ہے۔‘
پاکستان اور افغانستان میں شدپ پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ افغان طالبان کا کُرم میں اہل تشیع فرقے کے خلاف جنگ ’براہِ راست ملوث ہونا‘ مشکل ہے کیونکہ ’پاکستان خصوصاً کرم جیسے سرحدی علاقوں میں شیعہ سنی فرقہ وارانہ فسادات افغانستان میں دونوں فرقوں پر براہ راست اثر ڈال سکتے ہیں۔‘
’اگر ایسا کوئی اقدام ہوتا ہے تو یہ افغانستان کے ایران کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتا ہے، جو افغان طالبان کے لیے کسی طور قابل قبول نہیں ہو گا۔‘
تاہم عبدالسید کہتے ہیں کہ ضلع کُرم میں منگل، مقبل اور زادران جیسے سُنی قبائل بھی موجود ہیں اور ان سے تعلق رکھنے والے افراد افغانستان میں بھی رہائش پزیر ہیں۔
’جب کُرم میں اہل تشیع لشکر کی جانب سے سنی قبائل کے گھروں کو جلانے، بعض افراد کے ہلاک کرنے، ان کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر آنے اور ان کے عورتوں کو ساتھ لے جانے کی خبریں سامنے آتی ہیں، تو قبائلی روایات کے مطابق سرحد پار موجود ان قبائل کا اپنے ہم قبیلہ یا عزیز و اقارب کے انتقام میں اس تنازع میں شامل ہونا بعید از قیاس نہیں ہے۔‘
عبدالسید مزید کہتے ہیں کہ افغانستان کی سرحد میں بسنے والے قبائل میں افغان طالبان کے جنگجو اور کمانڈر بھی شامل ہیں ’جن کے قریبی تعلقات کُرم میں موجود سُنی قبائل سے ہیں اور اسی سبب کُرم میں جاری شیعہ، سُنّی تنازع مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔‘
یاد رہے کہ 22 نومبر کو ٹی ٹی پی کے ترجمان نے ایک بیان میں اہل تشیع افراد کے قافلے پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔ تاہم کالعدم گروہ کی جانب سے 24 نومبر کو ایک اور بیان جاری کیا گیا تھا جس میں بگن کے علاقے میں سُنّی قبائل پر حملے کی مذمت کی گئی تھی۔
چند مہینے قبل تک کُرم میں تعینات رہنے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ علاقے میں بھاری اسلحے کی موجودگی ان کے لیے ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے اور وہ اس کے لیے پڑوسی ملک افغانستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ کو پتا ہے کہ سرحد کے پار کون موجود ہے اور وہاں کیا کیا ہوتا رہا ہے تو اس کے کچھ تو نقصانات ہوں گے۔ جو حالیہ انخلا ہوا ہے امریکی افواج کا تو وہاں سے بھی شدت پسندوں کے خلاف اسلحہ لگا ہے۔ دونوں فریقین کے پاس جدید اسلحہ ہے۔‘
پاکستان کے قبائلی علاقوں پر گہری نظر رکھنے والے اور خراسان ڈائری سے منسلک تجزیہ کار افتخار فردوس کہتے ہیں کہ جب 2007 میں سُنّی کالعدم تنظیموں اور ٹی ٹی پی نے ضلع کُرم میں قدم جمانے کی کوشش کی تو مقامی شیعہ رہنما حاجی حیدر کی قیادت میں مسلح اہل تشیع لشکر نے انھیں شکست دی۔
افتخار فردوس کہتے ہیں کہ حاجی حیدر کا شمار پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سابق سربراہ قاسم سلیمانی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔
زینبیون کیا ہے اور کیا کرم فسادات میں اس کا کوئی کردار ہے؟
زینبیون بریگیڈ کے بارے میں عام خیال یہی ہے کہ یہ مسلح گروہ شیعہ پاکستانی جنگجوؤں پر مشتمل ہے جو شام میں خانہ جنگی کے دوران ایران کے اتحادی بشار الاسد کی حمایت میں لڑ رہا تھا اور انھیں عراق اور شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کی ذمہ داری بھی سوپنی گئی تھی۔
دوسری جانب ایران بھی زینبیون بریگیڈ سے اپنے تعلق کو خفیہ نہیں رکھتا اور ایرانی سرکاری میڈیا بشمول پاسدارانِ انقلاب سے منسلک تسنیم نیوز ایجنسی بھی شام اور عراق میں مارے جانے والے پاکستانی جنگجوؤں کی خبریں اور کہانیاں نشر کرتا رہتا ہے۔
ضلع کُرم کے علاقے باگزئی سے تعلق رکھنے والے بلدیاتی نمائندے محمد ریاض کا کہنا ہے کہ ’زینبیون بھی طالبان کی طرح کالعدم تنظیم ہے پھر اُن کے خلاف ویسی ہی کارروائی کیوں نہیں ہوتی؟ وہاں لوگوں کے پاس ایسے اسلحہ ہے جو شاید پولیس کے پاس بھی نہ ہو۔‘
کُرم سے تعلق رکھنے والے سابق رُکن قومی اسمبلی ساجد حسین طوری دعویٰ کرتے ہیں کہ ’ماضی میں ہمارے علاقے کے لڑکے شام میں داعش کے خلاف لڑنے جاتے رہے ہیں اور وہ سب مقامی افراد ہیں۔ یہاں کوئی عربی یا فارسی شہری موجود نہیں۔‘
تاہم وہ کُرم میں زینبیون کی منظم موجودگی کی تردید کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اُن کے علاقوں میں شیعہ قبیلوں پر حملوں میں داعش (نام نہاد دولتِ اسلامیہ) اور دیگر افغان گروہ ملوث ہیں۔
جب ان سے سُنی قبیلوں پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے استفسار کیا گیا تو انھوں نے کہا کہ ’یہ قبائلی کلچر ہے کہ جس علاقے میں حملہ ہوتا ہے وہیں کے مقامی افراد کو ان حملوں کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے اور وہاں مخالف قبیلے کے لوگ حملہ کر دیتے ہیں۔‘
ماضی میں واشنگٹن انسٹٹیوٹ اور یونیورسٹی آف میری لینڈ سے منسلک رہنے والے تجزیہ کار فلپ سمتھ نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ میں ’زینبیون اب بھی متحرک ہے، تاہم ان کی جانب سے اب سوشل میڈیا ایپ کے ذریعے کھل کر لوگوں کو بھرتی نہیں کیا جا رہا۔‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ ’ایران میں پڑھنے والے یا رہائش پزیر پاکستانی شیعہ افراد اب بھی بھرتی کیے جا سکتے ہیں۔‘
ان کی تحقیق کے مطابق ’زینبیون بریگیڈ کبھی بھی پانچ ہزار افراد سے زیادہ لوگوں پر مشتمل نہیں رہا، تاہم اب میرے خیال میں ان کی تعداد کم ہو کر ڈھائی ہزار سے چار ہزار تک آ گئی ہے۔‘
ضلع کُرم کا علاقہ پاڑہ چنار افغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے اور جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے لوگوں نے کُرم میں بھی نقل مکانی کی۔ جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں 2000 کے وسط میں ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا تو ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
کُرم میں تعینات رہنے والے ایک پولیس افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی اردو کو بتایا کہ انھوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ ضلع کُرم میں دونوں اطراف سے لڑنے والے افراد میں شامل کچھ لوگ غیرملکی تنازعات میں لڑ کر آئے ہیں۔
’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ کہیں اور سے تربیت لے کر آئے ہیں لیکن جب وہ لڑ کر آتے ہیں تو انھیں ٹریننگ بھی مل ہی جاتی ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ تربیت یافتہ لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے لیکن ’اُن کا تعلق جس بھی فرقے سے ہوتا ہے وہ اسی جانب سے لڑتے ہیں اور وہ بڑا بھاری اسلحہ استعمال کرتے ہیں۔‘
’صورتحال پولیس کے قابو کرنے سے باہر ہوتی ہے، پولیس کے پاس ایسا اسلحہ نہیں ہے جس سے ان لوگوں کو روکا جاسکے۔ پھرعلاقے کا محل وقوع ایک اور مسئلہ ہے۔ وہ علاقہ ایسا ہے کہ آپ درمیان میں نہیں آ سکتے، اگر آپ کو فورسز کو تعینات کرنا ہے تو آپ کو پہاڑ کے پیچھے سے چڑھنا پڑھتا ہے، ظاہر ہے اگر آپ ان کے سامنے سے آئیں گے تو آپ کو کسی ایک گروپ کی گولی لگ جائے گی۔‘
پاکستان انسٹٹیوٹ آف پیس سٹڈیز کے ڈائریکٹر عامر رانا کہتے ہیں کہ زینبیون کا پہلا مقصد نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنا تھا لیکن ’جب یہ لوگ واپس آنا شروع ہوئے تو بہت سے لوگ پنجاب اور کراچی میں تو پکڑے گے لیکن پاڑہ چنار کے لوگ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ریڈار پر نہیں آئے۔‘
’باقی پاکستان کی نسبت اس علاقے کے لوگوں کا مذہب کی طرف رجحان زیادہ ہے اور یہ منظم اور اعلی تربیت یافتہ بھی ہیں۔‘
پاکستان میں شیعہ برادری پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری ماضی میں نام نہاد دولت اسلامیہ کی خراسان شاخ قبول کرتی رہی ہے۔ سویڈن میں مقیم تجزیہ کار عبدالسید کہتے ہیں کہ ماضی میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ یہ دعویٰ کر چکی ہے کہ یہ حملے شام اور عراق میں پاکستانی افراد پر مشتمل زینبیون بریگیڈ کی کارروائیوں کے جواب میں کیے گئے ہیں۔
خراسان ڈائری سے منسلک افتخار فردوس بھی کہتے ہیں کہ اگست 2021 کے بعد داعش (نام نہاد دولتِ اسلامیہ) اور پاکستانی سُنّی تنظیموں نے ایک بار پھر پاکستان میں اپنی کارروائیاں تیز کی ہیں جس کے سبب زینبیون نے بھی ملک میں اپنا محاذ سنبھال لیا ہے۔
اُن کے مطابق ’ضلع کرم وہ علاقہ جو کہ چاروں اطراف سے ان سُنّی انتہاپسند تنظیموں کے نرغے میں ہے، اسی لیے زینبیون نے بھی اپنا رخ ضلع کُرم کی طرف کر لیا ہے۔‘
کُرم میں امن برقرار رکھنا کیسے ممکن ہے؟
ضلع کرُم کی صورتحال سے واقف اور ماضی میں وہاں تعینات رہنے والے حاضرِ سروس سکیورٹی افسران کا کہنا ہے کہ کُرم میں لڑائیوں کی بُنیادی وجہ زمینی تنازع ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد میں بیرونی عناصر کے ملوث ہونے کے معاملے کو بھی نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ’علاقے میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے فریقین کو غیرمسلح کرنا انتہائی ضروری ہے اور جو لوگ علاقے سے باہر سے آ کر لڑ رہے ہیں اُن پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔‘
بی بی سی سے گفتگو کے دوران دوسرے اعلیٰ سکیورٹی افسر نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پہلے تو انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت بیرونِ ملک تربیت لے کر آنے والے جنگجوؤں کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہیے۔ اگر ان افراد کو نہ روکا گیا تو کُرم میں جاری فرقہ وارانہ کشیدگی شہری علاقوں تک بھی پھیل سکتی ہے۔‘