لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) حال ہی میں جب شام میں ہیئت تحریر الشام کی قیادت میں باغی فورسز نے پیش قدمی شروع کی تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ صدر بشارالاسد کی فوج محض چند دنوں میں باغیوں کے آگے ہتھیار ڈال دے گی۔
شامی فوج کے اتنے جلدی پسپا ہونے کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کونسے عوامل تھے جن کی وجہ سے شامی فوج نے اتنی جلدی گھٹنے ٹیک دیے۔
شامی فوج کی صلاحیت
سال 2024 کے گلوبل فائر پاور انڈیکس کے مطابق فوجی لحاظ سے شام عرب دنیا میں چھٹے اور بین الاقوامی سطح پر 60ویں نمبر پر ہے۔
شامی فوج کو نیم فوجی دستوں اور ملیشیاؤں کی مدد حاصل ہے۔ ہتھیاروں کی بات کی جائے تو اس کے پاس سوویت دور کے خستہ حال آلات اور روس جیسے اتحادیوں سے حاصل کیے گئے نئے آلات موجود ہیں۔ گلوبل فائر پاور کے مطابق شام کی فوج کے پاس 1500 سے زیادہ ٹینک اور 3000 بکتر بند گاڑیاں ہیں۔ اس کے پاس توپ خانے اور میزائل سسٹم بھی موجود ہیں۔
فضائی طاقت کی بات کی جائے تو شام کی فوج کے پاس لڑاکا طیارے، ہیلی کاپٹرز اور تربیتی طیارے موجود ہیں جب کہ اس کے پاس ایک چھوٹا بحری بیڑا بھی ہے۔
کاغذوں پر دیکھا جائے تو یہ ایک مضبوط فوج دکھائی دیتی ہے لیکن کئی عوامل نے اسے کمزور کر دیا تھا۔
13 سالوں سے جاری خانہ جنگی
خانہ جنگی کے ابتدائی سالوں میں ہی شامی فوج کی تعداد کم ہوکر تقریباً نصف کے قریب رہ گئی تھی۔ بہت سے فوجیوں نے اپنی فوج کو چھوڑ کر باغی گروہوں میں شمولیت اختیار کر لی جب کہ فوجیوں کی ایک بڑی تعداد اس خانہ جنگی میں ماری گئی۔
اس کے علاوہ امریکی حملوں اور خانہ جنگی میں بھی شام کی فضائیہ کو کافی نقصان پہنچا۔
’ایک سپاہی کی تنخواہ تین دن کیلئے بھی ناکافی ہے‘
لندن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر فواز جرجس کہتے ہیں کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران شام کی معاشی صورتحال کافی خراب ہوئی ہے جس کی ایک بڑی وجہ امریکی پابندیاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ رپورٹس کے مطابق فوجیوں کو مناسب خوراک نہیں ملتی ہے۔
متعدد ایسی رپورٹس موجود ہیں جن میں فوجیوں کی کم تنخواہوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق سپاہیوں کی تنخواہ تقریباً 15 سے 17 ڈالر ماہانہ کے برابر ہے۔ ایک شامی شہری کے مطابق یہ ’تین دن کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔‘
گذشتہ ہفتے بشارالاسد نے فوجیوں کی تنخواہ 50 فیصد بڑھانے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد بظاہر فوج کا مورال بلند کرنا تھا تاہم ایسا لگتا ہے کہ یہ قدم اٹھانے میں شامی حکومت نے کافی دیر کر دی تھی۔
اتحادیوں کی جانب سے فوجی امداد روک دیا جانا
بیروت میں کارنیگی مڈل ایسٹ سینٹر کے سینئر فیلو ڈاکٹر یزید صیغ کہتے ہیں ایران، حزب اللہ اور روس کی طرف سے براہ راست فوجی امداد روک دیے جانے کی وجہ سے بھی شامی فوج کا مورال نمایاں طور پر گرا ہے۔ ان کے مطابق شام کے اتحادی اب کی بار اس کی جنگ میں مداخلت بھی نہیں کر پائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فوری امداد کے حقیقت پسندانہ وعدوں کے بغیر فوج میں لڑنے کا جذبہ بھی نہیں رہا تھا۔