کییف (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے پی/اےایف پی) یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں تحریر کیا،”جنگ کے آغاز کے بعد سے، یوکرین کے 43,000 فوجی میدان جنگ میں مارے گئے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ،”تقریباﹰ 370,000 زخمی یوکرینی فوجیوں کا طبی علاج کیا گیا‘‘ اور ان میں سے ”نصف‘‘ زخمی فوجی میدان جنگ میں واپس لوٹ گئے۔
زیلنسکی نے فروری میں ہلاک ہونے والے یوکرینی فوجیوں کی تعداد اکتیس ہزار بتائی تھی۔
زیلنسکی نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ 198,000 روسی فوجی مارے گئے اور مزید 550,000 زخمی ہوئے۔
عسکری تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ہلاک اور زخمی ہونے والے فوجیوں کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہونے کا امکان ہے۔ تاہم فوجی حکمت عملی کے سبب، متحارب فریق ہلاک ہونے والے فوجیوں کی تعداد کے بارے میں درست معلومات فراہم کرنے اسے اکثر ہچکچاتے ہیں۔
نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس میں ہفتے کے روز زیلنسکی سے ملاقات کے بعد اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ پر لکھا کہ یوکرین 400,000 فوجیوں کو ”مضحکہ خیز طور پر کھو چکا ہے‘‘ جبکہ 600,000 کے قریب روسی فوجی ہلاک یا زخمی ہوئے ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق ٹرمپ کے اس بیان نے یوکرین کے صدر کو اپنے فوجیوں کی تعداد ہلاکت کے بارے میں اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا حالانکہ ٹرمپ نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے یہ اعداد و شمار کہاں سے حاصل کیے ہیں۔
اُدھر کریملن نے ٹرمپ کے دعووں کو غلط قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا، لیکن ہمیشہ کی طرح اعداد و شمار نہیں بتائے۔ آزاد میڈیا نے حال ہی میں اپنی تحقیق کی بنیاد پر روسی فوجیوں کی ہلاکت کی تعداد 75 ہزار بتائی تھی۔
کییف کو بچانے کیلئے پائیدار امن کی ضرورت
امریکی صدر منتخب ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پیرس میں بات چیت کے بعد، یوکرین کے رہنما وولودیمیر زیلنسکی نے اتوار کے روز کہا کہ کییف کو روس سے بچانے کے لیے ”پائیدار‘‘ امن کی ضرورت ہے۔
قبل ازیں ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ وہ ”شاید‘‘ یوکرین کو دی جانے والی امداد کو کم کر دیں گے۔
ٹرمپ نے اتوار کو نشر ہونے والے، لیکن ہفتہ کو زیلنسکی سے ملاقات سے قبل ریکارڈ کیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کی آنے والی انتظامیہ یوکرین کو دی جانے والی امداد کو کم کر دے گی۔ واشنگٹن تقریباً تین سال قبل روس کے حملے کے بعد سے یوکرین کی مسلسل مدد کر رہا ہے۔
نوٹرے ڈیم کیتھیڈرل کے دوبارہ کھلنے کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب میں میزبان صدر ایمانوئل ماکروں کے ساتھ ٹرمپ اور زیلنسکی نے بھی شرکت کی۔ اس دوران ٹرمپ اور زیلنسکی میں بات چیت بھی ہوئی لیکن اس کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔ سرکاری طور پر صرف اتنا کہا گیا کہ ”بات چیت اچھی اور نتیجہ خیز رہی۔‘‘
ٹرمپ یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ تنازعہ کو تیزی سے ختم کر سکتے ہیں، لیکن یہ کبھی نہیں بتایا کہ ایسا کس طرح کریں گے۔ ماسکو اور کییف وائٹ ہاؤس میں ان کی آمد کے منتظرہیں، جب کہ حالیہ ہفتوں کے دوران جاری تنازعات میں مہلک حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
’صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے سے امن قائم نہیں ہوسکتا‘
زیلنسکی نے ٹرمپ کے بیان پر اتوار کو ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ امن صرف کاغذ کے ایک ٹکڑے سے قائم نہیں ہوسکتا، بلکہ اس کے لیے ضمانت کی ضرورت ہو گی۔
یوکرین کے صدر کا کہنا تھا، ”جب ہم روس کے ساتھ مؤثر امن کی بات کرتے ہیں، تو ہمیں پہلی اور اہم بات امن کی موثر ضمانتوں کے بارے میں کرنی چاہیے۔ یوکرین کے عوام کسی اور سے کہیں زیادہ امن چاہتے ہیں۔‘‘
زیلنسکی کا کہناتھا، ”یہ (جنگ) محض کاغذ کے ٹکڑے اور اس پر چند دستخط سے ختم نہیں ہو سکتی۔ ضمانتوں کے بغیر جنگ بندی کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی ہے اور جنگ پھر بھڑک سکتی ہے، جیسا کہ پوٹن پہلے بھی کہہ چکے ہیں۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ یوکرینی باشندوں کو مزید نقصانات کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا، ہمیں معتبر امن کی ضمانت دینی چاہیے اور قبضے کی طرف سےآنکھیں بند نہیں کرنی چاہیے۔‘‘