104

اسرائیل کے شام میں ایرانی تنصیبات سمیت 100 سے زائد فوجی اہداف پر فضائی حملے

دمشق (ڈیلی اردو/بی بی سی/نیوز ایجنسیاں) شامی میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیلی جنگی طیاروں نے دارالحکومت دمشق سمیت ملک بھر میں درجنوں حملے کیے ہیں۔

برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شام میں 100 سے زائد فوجی اہداف پر حملے کیے گئے ہیں۔

مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جن مقامات پر اسرائیل کی جانب سے حملے کیے گئے ہیں اُن میں کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری کا ایک تحقیقی مرکز بھی شامل ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اسد حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد ہتھیاروں کو ’شدت پسندوں کے ہاتھوں‘ جانے سے روکنے کے لیے کارروائی کر رہا ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کا اجلاس شام میں معزول صدر بشار الاسد کی حکومت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد ملک کی صورتحال پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ہو رہا ہے۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس (ایس او ایچ آر) کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو دنوں کے دوران اسرائیل کی جانب سے شام میں سینکڑوں فضائی حملے کیے گئے ہیں جن میں دمشق کے اُس مقام کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے کہ جس کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسے ایرانی سائنسدان راکٹس کی تیاری کے لیے استعمال کیا کرتے تھے۔

یہ حملے ایک ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب اقوام متحدہ کے کیمیائی ہتھیاروں کے نگران ادارے نے شام میں حکام کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ کیمیائی ہتھیاروں کے مشتبہ ذخیرے محفوظ ہیں۔

شام نے سنہ 2013 میں اقوام متحدہ کے کیمیائی نگران ادارے او پی سی ڈبلیو کے کیمیائی ہتھیاروں کے سرٹیفکیٹ پر دستخط کیے تھے جو دارالحکومت دمشق کے مضافات میں کیمیائی ہتھیاروں کے حملے کے ایک ماہ بعد ہوا تھا جس میں اعصابی ایجنٹ سارین شامل تھا اور 1،400 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اس حملے میں تڑپتے ہوئے متاثرین کی ہولناک تصاویر نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ مغربی طاقتوں کا کہنا ہے کہ یہ حملہ صرف حکومت کی جانب سے کیا جا سکتا تھا لیکن اسد نے اس کا الزام حزب اختلاف پر عائد کیا۔

سنہ 2018 میں بی بی سی کے تجزیے سے اس بات کی تصدیق ہوئی تھی کہ سنہ 2014 سے سنہ 2018 کے درمیان شام کی خانہ جنگی میں کم از کم 106 مرتبہ کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں