139

بشار الاسد حکومت کا خاتمہ: شام میں اب کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟

لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) صرف دو ہفتوں میں شامی باغیوں نے ملک کے شمال مغرب سے متعدد بڑے شہروں پر قبضہ کرنا شروع کیا اور پیش قدمی کرتے ہوئے دارالحکومت دمشق تک پہنچ گئے جہاں انھوں نے بشار الاسد کے 24 سالہ اقتدار کا خاتمہ کیا۔

چھوٹی گاڑیوں اور موٹر بائیکس کے قافلوں میں باغی گروہ ہیئت تحریر الشام نے شمال سے جنوب کی جانب ایک ہائی وے پر تیزی سے پیش قدمی کی اور دمشق پر بغیر کسی خاطر خواہ مزاحمت کے قبضہ کر لیا۔

جہاں متعدد افراد شام پر حکمرانی کرنے والے خاندان کی اقتدار سے بے دخلی پر جشن منا رہے ہیں وہیں مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے اور اس وقت شام میں صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بدل رہی ہے کیونکہ مختلف باغی گروہ ملک کے مختلف حصوں کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں۔

شام میں کون کس علاقے کو کنٹرول کر رہا ہے؟

شام کے مختلف حصوں پر کئی سال سے مختلف باغی گروہوں کا قبضہ رہا ہے جن میں حلب میں ہیئت تحریر الشام اور ملک کے شمال مشرق میں کرد افواج کا جزوی کنٹرول تھا۔

گذشتہ چند روز اور ہفتوں کے دوران باغی گروہوں نے مزید علاقوں پر بھی قبضہ کیا۔

ظاہر ہے کہ کوئی بھی باغی گروہ بشار الاسد حکومت کے خاتمے پر افسوس کا اظہار نہیں کرے گا لیکن ملک کیسے چلانا ہے، یہ آنے والے دنوں میں مشکل ثابت ہو سکتا ہے اور ملک کے شمال میں ابھی سے مخالف گروہوں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔

باغی دمشق کیسے پہنچے؟

کئی سال سے شمال میں برفیلی سرحدوں میں موجود باغیوں نے بجلی جیسی تیزی سے پیش قدمی کرتے ہوئے صدر کے اقتدار کا خاتمہ کیا اور ویک اینڈ پر دارالحکومت پر قبضہ کر لیا۔

شام کے دوسرے شہر حلب پر نومبر میں مکمل قبضہ کرنے کے بعد باغیوں نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی اور جنوب میں اہم شہر حماہ پر جمعرات کے روز قبضہ کر لیا۔

یہ پیش قدمی برق رفتار تھی اور دیکھتے ہی دیکھتے شام کے تیسرے اہم شہر حمص پر سنیچر کے روز قبضہ کر لیا گیا۔

اگلے ہی روز دارالحکومت دمشق پر بھی باغیوں کو باآسانی قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔

شام کہاں ہے اور اس کے ہمسائیوں کی مداخلت کس قسم کی ہے؟

شام کی آبادی دو کروڑ 20 لاکھ افراد پر مشتمل ہے اور یہ بحیرۂ روم کے مشرق میں واقع ہے۔ اس کی شمالی سرحد ترکی، مغربی اور جنوبی مغربی سرحد لبنان اور اسرائیل، مشرقی سرحد عراق اور جنوبی سرحد اردن سے جڑتی ہے۔

شام کے تنازع کے دوران ترکی، مغربی طاقتوں اور متعدد خلیجی ممالک نے شامی اپوزیشن کے مختلف گروہوں کی مختلف انداز میں حمایت کی۔

لبنان میں حزب اللہ جسے ایران کی حمایت حاصل ہے، نے ماضی میں شام میں حکومتی افواج کے خلاف لڑائی کی لیکن اب یہ اسرائیل کے ساتھ حالیہ تنازع کے دوران کمزور ہو گئی ہے۔

ماہرین کے مطابق یہ ایک اہم وجہ ہے کہ باغیوں کی پیش قدمی اتنی تیز کیوں رہی۔

اسرائیل شام کو ایران کا ’دفاعی مورچہ‘ قرار دیتا رہا ہے اور اس کی جانب سے بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد یہاں فضائی حملے کیے گئے ہیں۔

اسرائیل نے کیا ردِعمل دیا؟

اسرائیلی لڑاکا طیاروں نے اطلاعات کے مطابق اب تک شام کے مختلف علاقوں میں سینکڑوں حملے کیے ہیں جن میں شامی فوجی اڈے، اسلحہ ویئرہاوس، بارود کے ڈپو، ایئرپورٹس، بحری اڈے اور تحقیقاتی مراکز شامل ہیں۔

برطایہ کی شامی آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کا کہنا ہے کہ اس نے اب تک اسرائیل کی جانب سے کیے گئے 300 حملوں کے اعداد و شمار جمع کیے ہیں جن میں دمشق، حلب اور حماہ پر کیے گئے حملے بھی شامل ہیں۔

اطلاعات کے مطابق جن تنصیابت پر حملے کیے گئے ان میں سے اکثر مکمل طور پر تباہ ہو گئیں۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کارروائیاں دراصل اس لیے کی گئی ہیں تاکہ یہ اسلحہ کہیں ’شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔‘

اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے گولان کی پہاڑیوں پر بفر زون کا کنٹرول بھی سنبھال لیا اور شام کے ساتھ 1974 کا معاہدہ بشارہ الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد ختم ہو گیا۔

اس کی جانب سے ایسی اطلاعات کی تردید کی گئی ہے اس کے ٹینک دمشق کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن یہ ضرور کہا ہے کہ کچھ فوجی ٹولیاں بفر زون سے آگے شامی علاقے میں موجود ہیں۔

گولان کی پہاڑیاں 60 کلومیٹر کی پتھریلی جگہ ہے جو دمشق کے جنوب مغرب میں 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔

اسرائیل نے یہ علاقہ شام سے 1967 کی چھ روزہ جبگ کے اواخر میں اپنے قبضے میں لیا تھا اور سنہ 1981 میں یکطرفہ طور پر اسے اپنا حصہ دکھایا۔

اسرائیل کے اس اقدام کو بین الاقوامی سطح پر تو تسلیم نہیں کیا گیا لیکن سنہ 2019 میں امریکہ کی جانب سے اسے تسلیم کیا گیا تھا۔

شمالی شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام کے شمالی شہر منبج میں ترکی کے حمایتِ یافتہ باغیوں اور کرد افواج کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

دونوں اطراف سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ انھوں نے منبج شہر کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا اور کچھ علاقوں میں جھڑپیں اب بھی جاری ہیں۔

انسٹیٹیوٹ فار دی سٹڈی آف وار کے کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ انھیں یہ معلوم نہیں کہ منبج میں کس کا کنٹرول ہے۔

شام میں روسی فوجی اڈے کہاں ہیں؟

سنہ 2015 میں روس نے شام میں ہزاروں فوجی بھیجے تھے تاکہ صدر بشار الاسد کو اقتدار میں برقرار رکھا جائے۔

اس فوجی معاونت کے بدلے روس کو دو اہم فوجی اڈوں کی لیز 49 برس کے لیے دی گئی۔

طرطوس کی بندرگاہ روس کا بیرونِ ملک اور بحیرۂ روم میں واحد بحری اڈہ ہے۔

حميميم کے فضائی اڈے کو روس کی جانب سے اپنے کانٹریکٹرز کو افریقہ لے جانے اور وہاں سے واپس لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دونوں اڈے روس کی بطور عالمی طاقت اپنا کردار ادا کرنے کی صلاحیت دیتے ہیں۔

کریملن کا کہنا ہے کہ وہ شام کی نئی انتظامیہ کے ساتھ مل کر دونوں اڈوں کے مستقبل کے بارے میں بات کرے گا۔
بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ ہیئت تحریر الشام کے باغیوں کی اچانک اور غیر متوقع پیش قدمی کے باعث ہوا لیکن جہاں یہ گروہ شام کے بڑے شہروں پر انتظام سنبھالے ہوئے ہے وہیں یہ پورے ملک پر حکمرانی نہیں کرتا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں