واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) صدر بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاوس میں واپسی سے قبل قومی سلامتی کی ایک نئی یادداشت کی منظوری دے دی ہے جو آئندہ آنے والی انتظامیہ کے لیے ایک لائحہ عمل کے طورپر کام کرسکتی ہے۔ یہ چین ، ایران ، شمالی کوریا اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعاون پر مبنی ہے ۔ یہ بات وائٹ ہاؤس نے بدھ کے روز بتائی۔
بائیڈن انتظامیہ کے دو سینئیرعہدےد اروں کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے یہ یادداشت اس موسم گرما میں تیار کرنا شروع کی تھی۔ اس کو ایک ایسی دستاویز کی شکل دینے کے لیے تیار کیا گیا تھا جو آئندہ کی انتظامیہ کو پہلے دن سے اس بارے میں اپنا نقطہ نظر تشکیل دینے میں مدد کر سکے کہ وہ امریکہ کے انتہائی نمایاں مخالفین اور حریفوں کے ساتھ کشیدہ تعلقات سے کس طرح عہدہ برآ ہو۔
وائٹ ہاؤس کے طے شدہ اصولوں کے تحت عہدےداروں نے، اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ، اس کلاسیفائیڈ میمورینڈم کو اس کی کچھ معلومات کی حساسیت کی وجہ سے عوامی طور پر ظاہر نہیں کیا جائے گا۔
اس دستاویز میں چار وسیع سفارشات شامل ہیں: امریکی حکومت کی ایجنسیوں کے درمیان تعاون کو بہتر بنانا، اتحادیوں کے ساتھ چاروں حریف ملکوں کے بارے میں معلومات کے تبادلے کو تیز کرنا، امریکی حکومت کی جانب سے پابندیوں کے استعمال اور زیادہ سے زیادہ موثر بنانے کے لیے تعزیرات دوسرے اقتصادی طریقوں کو معیاری بنانا، اور حریفوں کی جانب سے بیک وقت بحرانوں سے نمٹنے کے لیے تیاری کو مضبوط کرنا۔
امریکہ کئی برسوں سے ان چاروں ملکوں کے درمیان تعاون میں اضافےکے بارے میں فکر مند ہے۔ 2022 میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ان ملکوں کے درمیان تعاون کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
حکام نے کہا ہے کہ روس کیوںکہ دنیا کے بیشتر حصوں سے الگ تھلگ ہو گیا ہے، اسلئے ماسکو نے ڈرونز اور میزائلوں کے حصول کے لیے ایران کا رخ کیا ہے۔ روسیوں کو شمالی کوریا سے توپیں، میزائل اور یہاں تک کہ ہزاروں فوجی ملے ہیں جو کرسک کے علاقے سے یوکرینی افواج کو پسپا کرنے میں روسیوں کی مدد کے لیے جاچکے ہیں۔ اسی دوران ، چین نے دوہرے استعمال کے اجزاء کے ساتھ روس کی مدد کی ہے جو اس کی فوجی صنعتوں کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس کےبدلے میں، روس نے ایران کو فائٹر جیٹ بھیجے ہیں اور ایسے میں تہران کی مدد کی ہے جب کہ وہ اپنے میزائلوں اور دفاعی اور خلائی ٹیکنالوجی کو مضبوط بنانا چاہتا ہے۔
شمالی کوریا نے اپنی مینوفیکچرنگ اور فوجی صلاحیتیں بڑھانے میں مدد کے لیے روس سے انتہائی ضروری ایندھن اور فنڈنگ حاصل کی ہے۔ حکام نے مزید کہا کہ روس نے “فی الواقع شمالی کوریا کو ایک جوہری ہتھیار رکھنے والی ریاست کے طور پر قبول کر لیا ہے۔”
اسی دوران چین اور روس اپنے فوجی تکنیکی تعاون کو مستحکم کرنے کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔ دونوں ملک آرکٹک کے خطے میں مشترکہ گشت بھی کر رہے ہیں۔
بائیڈن اور ٹرمپ کے عالمی نظریات ایک دوسرے سے مختلف ہیں، لیکن آنے والی اور سبکدوش ہونے والی انتظامیہ کے عہدیداروں نے کہا ہے کہ انہوں نے منتقلی کے دوران قومی سلامتی کے امور پر ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔
عہدیداروں میں سے ایک نے کہا کہ بائیڈن وائٹ ہاؤس میمو کو”انہیں (ٹرمپ انتظامیہ) مشکل میں ڈالنے یا انہیں پالیسی کے کسی ایک یا دوسرے آپشن کی طرف جھکانے کی کوشش نہیں کر رہا ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اس دستاویز کا مقصد اگلی انتظامیہ کی “صلاحیت” کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کرنا ہے جب کہ وہ کچھ مشکل ترین خارجہ پالیسیوں پر ، جو اسے درپیش ہوں گی، اپنی پالیسیاں ترتیب دے گی۔