واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/وی او اے) امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے افغانستان چھوڑتے ہوئے امریکہ کے تباہ کن انخلا کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ڈیموکریٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں کیے گئے انخلا کے معاہدے کا بہترین حد تک فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کی۔
بلنکن ریپبلکن کی قیادت والی ایوان کی خارجہ امور سے متعلق کمیٹی میں گواہی دینے کے لیے پیش ہوئے جہاں انہیں قانون سازوں کے تند و تیز سوالات اور کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔
اب جب کہ صدر بائیڈن کے اقتدار میں چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں، بلنکن نے آخری بار قانون سازوں کا سامنا کیا۔ سوال جواب کی طوالت کے باعث ان کی مشرق وسطی کے لیے روانگی میں قدرے تاخیر ہوئی۔
بلنکن نے کہا کہ افغانستان میں امریکہ کی اتحادی حکومت کے اچانک خاتمے اور اگست 2021 میں افراتفری کے عالم میں امریکیوں کے انخلا کی زیادہ تر ذمہ داری ٹرمپ کے دور میں طالبان سے 2020 میں طے پانے والے معاہدے پر عائد ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورت حال میں صدر بائیڈن کو جنگ ختم کرنے یا اسے مزید بڑھانے میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا تھا۔
بلنکن نے قانون سازوں کو بتایا کہ اگر بائیڈن اپنے پیش رو کے عزم پر عمل نہ کرتے تو وہاں ہماری افواج اور اتحادیوں پر حملے شروع ہو چکے ہوتے اور وہاں کے بڑے شہر طالبان کا نشانہ بن رہے ہوتے۔
لیکن مک کول اور دوسرے ریپبلکن قانون سازوں نے بلنکن اور بائیڈن انتظامیہ کو انخلا کی تباہ کن صورت حال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ اس سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں تھے اور وہ اس بارے میں بھی کافی شواہد حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے کہ طالبان امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا سے پہلے ہی ملک پر قابض ہو جائیں گے۔
ٹیکساس سے تعلق رکھنے والے ریبلکن قانون ساز مک کول نے کہا کہ یہ تباہ کن واقعہ ناکام خارجہ پالیسی کا نکتہ آغاز تھا جس نے دنیا کو آگ میں دھکیل دیا۔
انہوں نے بلنکن پر زور دیا کہ وہ اس تباہ کن انخلا کی ذمہ داری قبول کریں۔
فلوریڈا کے ریپبلکن قانون ساز برائن مسٹ نے، جو کانگریس کی اگلی کمیٹی میں چیئرمین کا عہدہ سنبھالنے والے ہیں، کہا کہ یہ تباہ کن تھا۔
بلنکن نے کہا کہ میں اس تجربے سے سبق حاصل کرنے کے لیے پرعزم ہوں، نہ صرف سیکھنے کے لیے بلکہ اس پر عمل کرنے کے لیے بھی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے محکہ خارجہ کو بحرانوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس سے کہیں زیادہ مضبوط بنا دیا ہے جتنا کہ یہ ہمیں ملا تھا یا جتنا یہ افغان بحران کے دوران تھا۔
امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارا اندازہ تھا کہ کابل کی حکومت دسمبر تک برقرار رہے گی لیکن حکومت گرنے کا واقعہ ہماری انٹیلی جینس اور توقعات سے کہیں زیادہ پہلے رونما ہو گیا۔
ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز افغان انخلا کے حوالے سے ایک دوسرے پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
افغانستان پر 20 سالہ امریکی فوجی قبضے کے نتیجے میں گیارہ ستمبر 2001 کو امریکہ پر دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار القاعدہ کے عسکریت پسندوں کا وہاں سے خاتمہ ممکن ہوا تھا جنہیں طالبان نے رہنے کی اجازت دی تھی۔
پہلے دور کی ٹرمپ انتظامیہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ ا فغانستان سے امریکہ کے انخلا کا معاہدہ کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی انخلا کا عمل شروع ہوا، أفغان طالبان نے کابل میں امریکی اتحادی حکومت گرانے اور افغانستان کی سرکاری افواج کو شکست دینے کے بعد چند مہینوں میں ملک پر قبضہ کر لیا۔
ایوان کی کمیٹی میں بلنکن کی گواہی، انخلا کی تحقیقات سے متعلق ریپبلکنز قانون سازوں کی ایک سخت رپورٹ کے کئی مہینوں کے بعد ہوئی ہے۔ رپورٹ میں ریپبلکنز نے بائیڈن انتظامیہ کو تباہ کن انجام کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔