پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) بدھ کو کابل میں ہونے والے خودکش دھماکے میں مارے جانے والے طالبان حکومت کے وزیر خلیل الرحمان حقانی افغانستان اور پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی اثرورسوخ رکھتے تھے۔
وہ افغان جنگ کے علاوہ سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے دوران بھی ایک متحرک شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں پیدا ہونے والے خلیل الرحمان حقانی کا تعلق افغانستان کے پاکستان سے ملحقہ علاقے خوست سے تھا۔
چند روز قبل قندھار میں طالبان رہنماؤں کے اجلاس کے دوران اُنہوں نے طالبان کے طرزِ حکمرانی پر سوال اُٹھائے تھے۔
سن 1970 کی دہائی میں خاندان سمیت افغانستان سے پاکستان منتقل ہونے والے خلیل الرحمان حقانی کے ساتھ پشاور کے مختلف علاقوں حیات آباد، یونی ورسٹی ٹاؤن کوہاٹ روڈ اور چمکنی میں حقانی خاندان کے گھروں اور حجروں میں کئی ملاقاتیں ہوئیں۔
آخری ملاقات ان کے ساتھ جون 2022 میں کابل کے ایک ہوٹل میں بھی ہوئی تھی۔ عام لوگوں بالخصوص صحافیوں کے موجودگی میں خلیل حقانی نہایت مختاط انداز میں گفتگو کرتے تھے۔ تاہم حقانی نیٹ ورک اور دیگر جنگجوؤں کے ساتھ ملاقاتوں اور مشاورت میں وہ نہایت ماہر کمانڈر یا رہنما کی حیثیت سے ہدایات دیتے تھے۔
نائن الیون کے بعد شروع ہونے والی افغان جنگ کے دوران وہ امریکی اور اتحادی افواج کے خلاف مسلح مزاحمت میں پیش پیش تھے۔ اُنہوں نے افغان طالبان کے علاوہ دیگر علاقائی اور بین الاقوامی جہادی گروپس کو متحد کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔
‘پراسرار’ کردار
خلیل الرحمان حقانی دراصل حقانی نیٹ ورک کے ‘پراسرار’ مگر منظم اور متحرک پشاور گروپ جو حاجی لالا گروپ کے نام سے جانا اور پہچانا جاتا ہے کے سربراہ تھے۔ ماہرین کے مطابق اسی پشاور یا حاجی لالا گروپ نے سرحد پار افغانستان میں تعینات نیٹو یا امریکی اتحادی افواج کو لگ بھگ دو دہائیوں تک سخت مشکلات سے دوچار کر دیا تھا۔ اسی بنیاد پر 2009 میں امریکہ اور اتحادیوں نے حقانی نیٹ ورک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ بھی کیا تھا۔
حقانی نیٹ ورک کے بانی مولوی جلال الدین حقانی اور ان کے خاندان کے دیگر افراد مولوی یونس خالص کے حزبِ اسلامی افغانستان سے منسلک رہے تھے مگر 1979 کے بعد مولوی جلال الدین حقانی نے ایک آزاد اور خودمختار کمانڈر کی حیثیت کے طور پر اپنا نام بنایا۔
وہ دیگر جہادی رہنماؤں کی طرح غیر ملکی نمائندہ عہدے داروں اور سفارت کاروں کے ساتھ پشاور اور اسلام آباد میں ملتے رہتے تھے۔ ان ملاقاتوں میں خلیل الرحمان حقانی، جلال الدین حقانی کے ساتھ موجود رہتے تھے۔
پاکستان میں سرگرم شدت پسند تنظیموں سے تعلقات
خلیل الرحمان حقانی کے پاکستان کی انتہا پسند تنظیموں بشمول ‘حرکت الانصار’، کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سپاہ صحابہ پاکستان، لشکرِ طیبہ اور لشکرِ جھنگوی سے بھی روابط تھے۔
سن 1992 کے بعد خلیل الرحمان حقانی نے زیادہ تر وقت پشاور میں ہی گزارا تھا اور اسی بنیاد پر پشاور یا حاجی لالا گروپ امریکی اتحادیوں کے خلاف مزاحمت میں بہت متحرک سمجھا جاتا تھا۔
پشاور میں جنگجوؤں کے ساتھ اجلاس یا ملاقات میں خلیل حقانی کا انداز گفتگو ایک ماہر جنگجو کمانڈر کی طرح ہوتا تھا۔
دسمبر 2007 میں کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد شمالی وزیرستان کے طول و عرض میں نہ صرف پاکستان اور افغانستان بلکہ کئی ایک اور ممالک سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسند جمع ہوئے۔
ان عسکریت پسندوں بالخصوص غیر ملکی عسکریت پسندوں کے ساتھ حقانی نیٹ ورک کے مستقل رابطے قائم تھے۔
پاکستان آمد
سن 1973 میں افغانستان میں سردار داؤد کے صدر بننے کے بعد جلال الدین حقانی اور کچھ دیگر افغان جہادی کمانڈرز سابق گورنر خیبر پختونخوا میجر جنرل (ر) نصیر اللہ بابر کی دعوت پر پاکستان آ گئے۔
مولوی جلال الدین حقانی اور ان کے خاندان کو شمالی وزیرستان کے مرکزی انتظامی شہر میران شاہ کے قریب ڈانڈے درپہ خیل میں ایک وسیع علاقے میں رہائش فراہم کی گئی۔ رہائش گاہ کے علاوہ ایک وسیع رقبے پر مولوی جلال الدین حقانی نے ایک مدرسہ اور کئی ایک کمروں پر مشتمل حجرہ بھی تعمیر کیا۔
نائن الیون کے بعد حقانی خاندان کے افراد اور دیگر رشتے دار روپوش ہو گئے تھے۔ خلیل الرحمان حقانی کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد القاعدہ اور دیگر عسکریت پسندوں گروپس کے اہم رہنماؤں کو پاکستان منتقل کرنے اور محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے میں اُنہوں نے اہم کردار ادا کیا۔
اسی بنیاد پر خلیل حقانی کو دسمبر 2011 میں امریکہ نے بین الاقوامی طور پر مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا تھا اور انہیں زندہ پکڑنے یا ہلاک کرنے پر 50 لاکھ امریکی ڈالر کا انعام بھی مقرر کیا تھا۔
اگست 2021 میں جب طالبان نے دوبارہ برسرِ اقتدار آ کر قندھار میں حکومت سازی پر صلاح مشورے کرنا شروع کر دیے تو اس وقت طالبان تحریک میں شامل قندھاری رہنما حقانی نیٹ ورک کو زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں تھے مگر خلیل حقانی ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔
خلیل حقانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو بہتر اور افغانستان میں تعلیم اور اصلاحات کے حامی تھے۔