لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) شام کے دارالحکومت دمشق میں ایرانی سفارتخانے کے فرش پر ٹوٹے ہوئے شیشوں اور ایرانی پرچم کے ٹکڑوں کے درمیان ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی تصاویر والے پھٹے ہوئے پوسٹرز بھی نیچے بکھرے پڑے ہیں۔
اسی جگہ پر لبنان کی حزب اللہ کے سابق رہنما حسن نصراللہ، جو ستمبر کے دوران بیروت پر ایک اسرائیلی حملے میں مارے گئے تھے، کی پھٹی ہوئی تصاویر بھی زمین پر پڑی نظر آ رہی ہیں۔
ایرانی سفارتخانے کی فیروزی ٹائلیں تو اپنی جگہ قائم ہیں مگر یہاں ایران کے پاسداران انقلاب کے انتہائی بااثر سابق فوجی رہنما قاسم سلیمانی، جنھیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ حکم پر مارا گیا تھا، کی ایک بڑی تصویر ہے جس پر ان کے چہرے کو مسخ کیا گیا ہے۔
شام میں بشارالاسد کو اقتدار سے بےدخل کیے جانے کے بعد دمشق میں واقع ایرانی سفارتخانے میں رہبر اعلیٰ اور قاسم سلیمانی کی مسخ شدہ تصاویر یہ یاد دلاتی ہیں کہ ایران کو کیسے ایک کے بعد ایک نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
اب ایک ایسے وقت پر جب ایران اپنے زخم چاٹ رہا ہے اور اسے ڈونلڈ ٹرمپ کے ایک اور صدارتی دور کا سامنا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ایسے میں یہ ملک ایک بار پھر بہت سخت گیر پالیسی اختیار کرے گا یا پھر یہ مغربی ممالک کے ساتھ مذاکرات کا دوبارہ آغاز کرے گا؟
اور یہ کہ اس وقت ایران کی اپنی حکومت کس قدر مضبوط ہے؟
بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد رہبر اعلیٰ نے اپنی ایک شکست کے باوجود خطاب کے لیے ایک دلیرانہ انداز اختیار کیا۔ سنہ 1989 سے ایران کے سیاہ و سفید کے مالک رہنے والے 85 برس کے آیت اللہ خامنہ ای کو اب اپنے جانشین کے چیلنج کا بھی سامنا ہے۔
انھوں نے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ ’ایران مضبوط اور طاقتور ہے اور یہ مزید مضبوط ہوگا۔‘
انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت سے حماس، حزب اللہ، یمن کے حوثی اور عراقی شیعہ گروہوں پر مشتمل اتحاد ‘مزاحمت کا محور’ بھی اسرائیل کے خلاف مزید مضبوط ہو کر ابھرے گا۔
آیت اللہ نے اپنے خطاب میں مزید کہا کہ ’تم جتنا دباؤ ڈالو گے، یہ مزاحمت اتنی ہی بڑھے گی۔
’تم جتنے جرائم کرو گے تو یہ مزاحمت اتنی ہی مستحکم ہو گی۔ تم ہمارے خلاف جتنا لڑو گے تو یہ لڑائی اتنی ہی پھیلے گی۔‘
مگر 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے، جسے اگر ایران کی حمایت حاصل نہ بھی تھی تو اس کی تعریف اس نے ضرور کی، کے بعد سے جو کچھ خطے میں ہوا اس سے ایران کی حکومت ہِل کر رہ گئی۔
اسرائیل کی اپنے دشمنوں کے خلاف کارروائیوں نے مشرق وسطیٰ میں ایک نئے منظرنامے کو جنم دیا ہے جس میں اب ایران کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا۔ امریکہ کے سابق سفارتکار اور تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ مزاحمت کے محور کے ’تمام حصہ دار اب شکست کھا رہے ہیں۔‘
ان کے مطابق ’ایران کے مزاحمت کے محور کو اسرائیل نے کُچلا اور شام میں حکومت کی تبدیلی کے بعد تو اب یہ مزید بکھر رہا ہے۔ یمن کے حوثیوں کے علاوہ خطے میں ایران کے پاس کوئی راستہ نہیں۔‘
ایران اب بھی پڑوسی ملک عراق میں طاقتور مسلح شیعہ گروہوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ مگر جیمز جیفری کے مطابق ’جو کچھ ہوا اس سے غیرمعمولی طور پر خطے میں (ایرانی) تسلط کا خاتمہ ہوا۔‘
بشار الاسد آخری بار عوامی سطح پر یکم دسمبر کو ایران کے وزیر خارجہ کے ساتھ ایک اجلاس میں نمودار ہوئے تھے جب انھوں نے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ شام کے دارالحکومت کی طرف پیش قدمی کرنے والے باغیوں سے سختی سے نمٹیں گے۔
مگر اب اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد اس وقت اب بشار الاسد روس میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
ایران کے شام میں سفیر حسین اکبری نے بشار الاسد کو مزاحمت کے محور کے سرکردہ رہنما کے طور پر متعارف کرایا۔ مگر جب خود بشار الاسد کے اقتدار کا آخری وقت آن پہنچا تو پھر ایران بھی ان کے لیے کچھ کرنے کے قابل نہ رہا۔
چند دنوں میں مزاحمتی محور میں شامل ایک اہم ترین رہنما کا نام بھی اس فہرست سے مٹ گیا۔
ایران نے اپنا نیٹ ورک کیسے بنایا؟
ایران نے خطے میں اپنا اثرو رسوخ برقرار رکھنے اور اسرائیل کے خلاف ایک طاقت کھڑی کرنے کی غرض سے کئی دہائیاں لگا کر مسلح گروہوں کا ایک نیٹ ورک تیار کیا۔
یہ سلسلہ سنہ 1979 سے شروع ہوتا ہے۔ عراق کے ساتھ جنگ کے بعد شام کے حکمران بشار الاسد کے والد حافظ الاسد نے بھی ایران کی حمایت کی۔
شام میں اسد خاندان (جن کا تعلق علوی فرقے سے ہے) اور ایران میں شعیہ علما کے درمیان اتحاد نے سنی اکثریتی مشرق وسطیٰ میں ایران کی طاقت کو مضبوط کیا۔ ایران کے لیے اپنے اتحادی لبنان، حزب اللہ اور خطے میں دیگر مسلح گروہوں کی مدد کے لیے شام اہم سپلائی روٹ بھی تھا۔
ایران اس سے قبل بھی بشار الاسد کی مدد کے لیے سامنے آیا۔ جب سنہ 2011 میں بشار الاسد کے خلاف ایک بغاوت شروع ہوئی تو ایسے میں ایران نے ان کی مدد کے لیے جنگجو، ایندھن اور ہتھیار بھیجے۔ فوجی مشیر کے طور پر فرائض سرانجام دیتے ہوئے دو ہزار سے زائد ایرانی فوجی اور جرنیل مارے گئے ہیں۔
تھنک ٹینک چھیتم ہاؤس کے مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی سربراہ ڈاکٹر صنم وکیل کا کہنا ہے کہ ہمیں معلوم ہے کہ ایران نے سنہ 2011 سے شام کی مدد کے لیے 30 سے 50 بلین ڈالر خرچ کیے۔
مگر اب اگر ایران کی طرف سے مستقبل میں لبنان میں حزب اللہ اور دیگر گروہوں کی مدد کی کوشش کی گئی تو تہران کے لیے یہ سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔
ڈاکٹر صنم وکیل کے مطابق مزاحمت کا محور ایک ایسا نیٹ ورک تھا جسے اس طرح بنایا گیا تھا کہ وہ ایران کے لیے اہم اثاثہ ثابت ہو اور اس کی موجودگی میں تہران پر کسی قسم کا کوئی براہ راست حملہ نہ ہو سکے۔ ’مگر یہ حکمت عملی واضح طور پر ناکام ہو چکی ہے۔‘
شام میں بشار الاسد حکومت کے خاتمے کے بعد ایران کے لیے آگے بڑھنے کے امکانات محدود ہو گئے ہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں اسرائیل سے براہ راست لڑائی میں تہران کی فوج کمزور نظر آئی ہے۔
اکتوبر میں ایران نے اسرائیل پر جو بیلسٹک میزائل داغے ان کا تعاقب کر کے انھیں بے اثر کر دیا گیا تھا۔ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے کچھ میزائیلوں سے اسرائیل کے متعدد فضائی اڈوں کو نقصان بھی پہنچا۔
اسرائیل کے جوابی حملے میں ایران کے ایئر ڈیفنس کے نظام اور میزائل بنانے کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچا۔ جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ ’میزائل تھریٹ تو محض کاغذی شیر ثابت ہوا ہے۔‘
حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کی جولائی میں تہران میں ہلاکت بھی ایران کے لیے شرمندگی کا باعث بنی۔
اب ایران کا مستقبل کیا ہوگا؟
ایران کی ترجیح اول اپنی بقا کو یقینی بنانا ہے۔
ڈاکٹر صنم وکیل کے مطابق اب ایران اپنے آپ کو تبدیل کرنے، مزاحمت کے محور میں سے جو بچا ہے اسے تقویت دینے اور علاقائی تعلقات میں دوبارہ سرمایہ کاری کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ نومنتخب امریکی صدر ٹرمپ کے دباؤ سے بچا جا سکے۔
ڈینس ہورک نے کینیڈا کے ناظم الامور کے طور پر تین سال ایران میں گزارے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ ایک مضبوط اعصاب والی حکومت ہے جس میں طاقت کے زبردست محور ہیں، اور وہ خطرات سے کھیل سکتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ایران میں اب بھی لڑنے کی بے پناہ صلاحیت ہے جسے اسرائیل سے جنگ کی صورت میں وہ خلیجی عرب ممالک کے خلاف استعمال کر سکتا ہے۔ انھوں نے خبردار کیا ہے کہ ایران کو محض کاغذی شیر سمجھنے کی غلطی نہ کی جائے۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عالمی طور پر ایران اب کافی کمزور ہوا ہے۔ ابھی اسے غیرمتوقع ڈونلڈ ٹرمپ کا سامنا ہو گا جو جلد امریکی صدر کا حلف اٹھا لیں گے اور دوسرا اسرائیل نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے دشمنوں کا انتخاب کیسے کرتا ہے۔
ڈاکٹر صنم وکیل کے مطابق ایران یقینی طور پر اپنے ’ڈیفنس ڈاکٹرائن‘ یعنی دفاعی نظریے کو بھی ازسرنو ترتیب دے گا جس کا پہلے خاصا انحصار مزاحمت کے محور پر تھا۔
’اب وہ اپنے نیوکلیئرپروگرام کا بھی جائزہ لے گا اور اس بات کا بھی تعین کرے گا کہ ملک کی وسیع تر سلامتی کے لیے اس پروگرام میں بڑی سرمایہ کاری ضروری ہو گی۔‘
جوہری ہتھیاروں کی صلاحیت
ایران کا یہ اصرار ہے کہ اس کا نیوکلیئر پروگرام مکمل طور پر پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔ مگر ٹرمپ نے اپنے پہلے دور اقتدار میں ایران سے 2015 کا معاہدہ ختم کیا۔ اس معاہدے کے تحت معاشی پابندیوں کے خاتمے کے بدلے ایران اپنے پروگرام کو محدود کرنے پر رضامند ہو گیا تھا۔
اس معاہدے کے تحت ایران کو یورینیم افزودگی 3.67 فیصد تک کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ کم درجے کی یورینیم افزدوگی سے تجارتی نیوکلیئر پاور پلانٹس کے لیے ایندھن پیدا کیا جا سکتا ہے۔
جوہری امور پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی تنظیم انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ اب ایران اسے 60 فیصد تک لے جا کر یورینیم کی افزدوگی کی حد میں بہت زیادہ اضافہ کر رہا ہے۔ ایران کا کہنا ہے کہ وہ امریکی پابندیوں کے جواب میں ایسا کر رہا ہے۔
نیو کلیئر بم کے لیے 90 فیصد اور اس سے زیادہ حد تک یورینیم کی افزودگی درکار ہوتی ہے۔ آئی اے ای اے کے سربراہ رافیل گروسی کا کہنا ہے کہ ایران شاید خطے میں اسے پہنچنے والے نقصانات کے بعد ایسا کر رہا ہے۔
رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ’نیوکلیئر پروفیلریشن‘ کی امور کی ماہر دریا دولزیکوف کا کہنا ہے کہ ’یہ خاصی تشویشناک صورتحال ہے۔‘
ان کے مطابق ایران کا ’نیوکلیئر پروگرام سنہ 2015 کے مقابلے میں بالکل ایک مختلف جگہ پر ہے۔‘
اگرچہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران ایک ہفتے کے اندر یورینیم کی افزودگی سے بم تیار کر سکتا ہے مگر اس کے لیے اسے وارہیڈ کی ضرورت ہے جس سے پھر وہ یہ بم فائر کرنے کے بھی قابل ہو سکے۔ اس عمل میں کئی ماہ لگ جاتے ہیں یا کم از کم ایک سال کا عرصہ درکار ہے۔
دریا دولزیکوف کے مطابق ’ہمیں نہیں معلوم کہ ایران کس حد تک نیوکلئیر ہتھیاروں کے قریب پہنچ چکا ہے۔ مگر ایران کو اب اس بارے میں علم ہو گیا ہے اور اب اسے پیچھے ہٹانا خاصا مشکل ہوگا۔‘
مغربی ممالک کو اس پر تشویش ہے۔
تل ابیب یونیورسٹی میں اسرائیلی انسٹیٹیوٹ فار نیشنل سکیورٹی سٹڈیز کی سینیئر محقق ڈاکٹر ریز زمت کا کہنا ہے کہ ’یہ واضح ہے کہ ٹرمپ ایران کو (اس حوالے سے) مکمل دباؤ میں رکھیں گے۔
’مگر میرے خیال میں وہ ایران سے مذاکرات کے دروازے بھی کھولیں گے تاکہ اس متعلق از سر نو بات چیت کا آغاز ہو سکے اور وہ ایران کو اس کے نیوکلیئر پروگرام سے دستبرداری پر راضی کر سکیں۔‘
اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کی خواہش ہے کہ وہ ایران میں حکومت کی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مگر ڈاکٹر ریز کے خیال میں اسرائیل انتظار کرے گا کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ کیا کرتے ہیں اور ایران اس کا پھر کیا جواب دیتا ہے۔
اس کے امکان کم ہیں کہ ایران جنگ چھیڑنے کا متمنی ہوگا۔ تہران یونیورسٹی میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر نصر ہادیان کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں بطور بزنس مین ڈونلڈ ٹرمپ ایران سے بات چیت کی راہ نکالیں گے اور ڈیل کی کوشش کریں گے۔‘
اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر وہ اسے مذاکرات کی میز تک لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالیں گے۔
ان کے خیال میں ’جنگ سے زیادہ ڈیل کے امکانات ہیں۔‘ تاہم ان کے مطابق ’اس بات کے بھی امکانات موجود ہیں کہ اگر وہ زیادہ دباؤ بڑھائیں گے تو اس سے خرابی بھی پیدا ہو سکتی ہے اور پھر اس کا نتیجہ جنگ کی صورت میں نکلے گا جو ہم میں سے کوئی بھی نہیں چاہتا۔‘
کیا ایرانی حکومت بھی خطرے میں ہے؟
ایران کو اس وقت متعدد داخلی چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ تہران نے نئے رہبر اعلیٰ کا بھی انتخاب کرنا ہے۔
ڈاکٹر صنم وکیل کے مطابق آیت اللہ خامنہ ای اب اس بات پر پریشان ہو رہے ہوں گے کہ وہ جاتے ہوئے اپنی وراثت اور اقتدار کی منتقلی اس طرح کریں کہ ایران ایک ’مستحکم پوزیشن پر کھڑا ہو۔’
ملک بھر میں سنہ 2022 کے احتجاج کے بعد ایرانی حکومت کو بڑا دھچکا لگا تھا۔ یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ایک نوجوان خاتون مہسا امینی کو اس الزام پر مار دیا گیا کہ وہ معقول پردہ نہیں کرتی تھیں۔
اس احتجاج کے ذریعے مذہبی رہنماؤں کی اسٹیبلشمنٹ کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا گیا اور پھر ان مظاہروں کو طاقت کے بل بوتے پر کچل دیا گیا۔
ملک کے اندر ابھی یہ غصہ بڑے پیمانے پر ہے کہ ایران ملک سے باہر تو بہت خرچ کر رہا ہے مگر جو بے روزگاری اور افراط زر کا سامنا ایرانی شہریوں کو ہے اس سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں۔
خاص طور پر ایران کی نوجوان نسل اسلامی انقلاب سے کٹی ہوئی ہے۔ ان کی اکثریت حکومتی پابندیوں پر سوالات اٹھاتی ہے۔ گرفتاری کے خطرے کے باوجود ہر روز خواتین بغیر پردے کے باہر نکل کر حکومتی اقدام کو ہوا میں اڑا دیتی ہیں۔ ایران پر نظر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ اس سب کے باوجود ابھی شام کی طرح ایران میں حکومت کی تبدیلی کا کوئی امکان ہے۔
جیمز جیفری کا کہنا ہے کہ ’میرا نہیں خیال کہ ایرانی عوام دوبارہ اٹھیں گے کیونکہ ایران نے اپنی سلطنت کھو دی ہے جو کہ بہت غیر مقبول تھی۔‘
ڈینس ہورک کے خیال میں اب ایران کی اختلافی آوازوں کے لیے برداشت مزید کم ہو جائے گی کیونکہ اب وہ اپنی اندرونی سکیورٹی پر توجہ دے گا۔
پردہ نہ کرنے والی خواتین کی سزاؤں کو بھی مزد سخت کرنے سے متعلق بھی قانون سازی جلدی ہونے والی ہے۔ تاہم ان کی رائے میں ابھی ایرانی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’اگر لاکھوں ایرانی اس حکومت کی حمایت نہیں کرتے تو وہاں لاکھوں ایسے بھی ہیں جو اس کے حمایتی ہیں۔ میرا نہیں خیال کہ یہ حکومت کسی بھی وقت گر سکتی ہے۔‘
اگر ملک کے اندر غصے کو بھی دیکھا جائے اور شام میں ایران کو پہنچنے والے نقصان پر بھی نظر دوڑائی جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب ایران کے حکمرانوں کو ضرور ایک پیچیدہ صورتحال کا سامنا ہے۔