178

شام میں میزائلوں کی ذخیرہ گاہ پر بڑے اسرائیلی فضائی حملے

دمشق (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی/رائٹرز) شام کے خونریز تنازعے پر نظر رکھنے والی تنظیم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے پیر سولہ دسمبر کے روز کہا کہ اسرائیل نے شام میں میزائلوں کے ایک گودام پر فضائی حملے کیے ہیں۔ ان حملوں کی شدت کے تناظر میں انہیں 2012 ء سے اب تک ”شدید ترین‘‘ حملے قرار دیا جا رہا ہے۔

صدر بشار الاسد کے اقتدار کے ڈرامائی خاتمے کے بعد اسرائیل کی جانب سے شام کے مختلف فوجی مقامات پر گولا باری اور فضائی حملوں کا سلسلہ جاری ہے، جس کا مقصد شام کے فضائی دفاع اور سابق شامی فوج کے زیادہ تر ہتھیاروں اور گوداموں کا صفایا کرنا ہے۔

جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی

شام سے موصولہ اطلاعات کے مطابق اسرائیلی فوجیوں نے ایک سرحدی بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے تاہم اسرائیل کے اس اقدام کی مذمت کی چنگاری پھیلتی دکھائی دے رہی ہے۔ ناقدین اسرائیل پر 1974ء کے جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگا رہے ہیں اور اسے ممکنہ طور پر زمین پر قبضے کے لیے شام میں پھیلی افراتفری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش قرار دے رہے ہیں۔

یہ افراتفری اس وقت سے شام میں نظر آرہی ہے، جب سابق شامی صدر بشار الاسد کے مخالف باغیوں کی پیش قدمی کے نتیجے میں ایک ہفتہ قبل اسد خاندان کی نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط حکمرانی کا خاتمہ ہوا۔ شام کی موجودہ صورتحال نے علاقائی عدم استحکام کے خدشات کو نئے سرے سے جنم دیا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ اور لبنان میں حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جھڑپوں کے دیرپا خاتمے کے وہاں فائر بندی معاہدے کے باوجود کوئی واضح آثار نظر نہیں آ رہے۔

گولان کے پہاڑی سلسلے میں اسرائیلی دراندازی

بشارالاسد کا تختہ الٹنے والے سابق باغیوں نے دمشق میں انتظامیہ کی قیادت سنبھال لی ہے تاہم یہی باغی اور شام کی نئی انتظامیہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے گولان کی پہاڑیوں کے شامی علاقے میں اسرائیلی بمباری اور دراندازی کی شکایت بھی کی ہے۔ ساتھ ہی باغیوں کی انتظامیہ نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تصادم یا محاذ آرائی نہیں چاہتی۔

ترکی کا رد عمل

دریں اثنا ترکی نے گولان کی مقبوضہ پہاڑیوں کے علاقے میں یہودی بستیوں کی توسیع کے اسرائیلی منصوبے کی مذمت کی ہے۔ انقرہ سے موصولہ تازہ خبروں کے مطابق ترک وزارت خارجہ نے پیر کے روز ایک بیان میں کہا، ”یہ فیصلہ اسرائیل کے مقاصد کی توسیع یعنی قبضے کے ذریعے اپنی سرحدوں کو پھیلانے کے ایک نئے مرحلے کی نشاندہی کرتا ہے۔‘‘ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ انقرہ کو اس امر پر گہری تشویش ہے کیونکہ ”اس اقدام سے پورے خطے میں امن و استحکام کے قیام کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

ترک وزارت خارجہ نے عالمی برادری پر زور دیتے ہوئے کہا، ”عالمی برادری کو ضروری ردعمل ظاہر کرنا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل اور وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی حکومت کی غیر قانونی سرگرمیوں کا خاتمہ ہو۔‘‘

قطر نے بھی اسرائیل کے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ”شامی علاقوں پر اسرائیلی جارحیت کا جاری سلسلہ اور بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔‘‘

امریکی باشندوں کو شام سے نکل جانے کا مشورہ

دمشق میں قائم امریکی سفارت خانے نے امریکی باشندوں کو شام سے نکل جانے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی سفارت خانے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ”شام میں سلامتی کی صورت حال بدستور تشویش ناک اور غیر متوقع ہے۔ مسلح تصادم اور دہشت گردی نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔‘‘

دمشق میں امریکی سفارت خانے نے، جو 2012 ء سے بند ہے، سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں لکھا کہ تمام امریکی شہری شام سے رخصت ہو جائیں اور جو ملک چھوڑنے کے قابل نہیں، ان کو ”ہنگامی حالات کے لیے ہنگامی منصوبے‘‘ تیار کرنا چاہییں۔

امریکی سفارت خانے کےاس بیان میں مزید کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں لیکن یہ کہا گیا ہے کہ امریکی حکومت ایسے امریکی شہریوں کو، جنہیں شام سے نکلنے کے لیے ہنگامی امداد کی ضرورت ہے، کو معمول کی یا ہنگامی قونصلر خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ تاہم امریکی شہری شام سے نکل کر جس ملک میں داخل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں، انہیں وہاں قائم امریکی سفارت خانے سے رابطہ کرنا چاہیے۔

واضح رہے کہ دہشت گرد گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے بظاہر غیر فعال یا ‘سلیپر سیلز‘ نے شام کے مختلف حصوں میں گزشتہ مہینوں کے دوران ہونے والے کئی مہلک حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ مارچ 2019ء میں اپنی شکست کے باوجود ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے انتہا پسند جنگ زدہ ملک شام کے لیے ہنوز خطرہ بنے ہوئے ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں