ماسکو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) روسی پارلیمنٹ نے آج بروز منگل کو ایک ایسے بل کی منظوری دی ہے، جس سے ماسکو کے لیے افغان طالبان کو کالعدم ”دہشت گرد‘‘ تنظیم کے درجے سے ہٹانے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ ماسکو نے 2021 میں امریکہ کے افغانستان سے افراتفری میں انخلاء کے بعد وہاں حکمران طالبان کے ساتھ تعلقات کو فروغ دیا ہے۔ روسی حکام اس پیشرفت کے بعد سے طالبان کو ماسکو کی کالعدم ”دہشت گرد‘‘ گروپوں کی فہرست سے نکالنے پر زور دیتے آئے ہیں۔
روسی پارلیمان کے ایوان زیریں ڈوما نے جس بل کی منظوری دی ہے اس میں دہشت گرد قرار دیے گئے گروہوں کو قانونی طور پر اس فہرست سے نکالے جانے کے طریقہ کار کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ اسی طریقہ کار کی روشنی میں طالبان سے متعلق مستقبل کے متوقع فیصلے کے لیے ضروری قانونی فریم ورک تیار کیا جائے گا۔ روس کی ایوان بالا کی فیڈریشن کونسل جمعہ کو اس بل پر غور کرے گی، اس سے پہلے کہ یہ مسودہ صدر ولادیمیر پوٹن کی منظوری سے قانون کی شکل اختیار کر جائے۔
گزشتہ ماہ کابل کے دورے میں روس کے اعلیٰ سکیورٹی حکام نے اپنے افغان ہم منصبوں کو بتایا تھا کہ ماسکو جلد ہی طالبان کو کالعدم تنظیموں کی فہرست سے نکال دے گا۔ مجوزہ نظام کے تحت روس کے پراسیکیوٹر جنرل ایک روسی عدالت میں درخواست دائر کریں گے، جس میں بتایا گیا ہے کہ اس گروپ نے دہشت گردی کی حمایت میں اپنی سرگرمیاں ”بند‘‘ کر دی ہیں۔ اس کے بعد ایک جج اس گروپ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے ہٹانے کا حکم دے سکتا ہے۔
یہ متوقع اقدام طالبان کی ”اسلامی امارت افغانستان‘‘ کہلانے والی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کے مترادف نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ پوٹن نے اس سال کے شروع میں طالبان کو ”دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘‘ قرار دیا تھا، جب کہ وزیر خارجہ سیرگئی لاوروف نے مغرب سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ افغانستان پر سے پابندیاں ہٹائے اور ملک میں تعمیر نو کی کوششوں کی ”ذمہ داری‘‘ لیں۔
وسطی ایشیا میں روس کے اتحادی اور افغانستان کے پڑوسی ممالک بھی طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات کا وعدہ کر رہے ہیں۔ قازقستان نے 2023 ءکے آخر میں طالبان کو کالعدم ”دہشت گرد‘‘ گروپوں کی اپنی فہرست سے نکال دیا تھا۔ اس اقدام سے ماسکو اور افغانستان کے درمیان سفارت کاری کو ایک ایسے موقع پر فروغ مل سکتا ہے، جب دونوں ممالک کو مغرب میں تنہائی کا سامنا ہے۔ 2021 ء میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے طالبان نے افغانستان میں اسلامی قانون کی ایک انتہائی شکل کو نافذ کر رکھا ہے، جو خواتین کو عوامی زندگی میں شرکت سے مؤثر طریقے سے روکتا ہے۔