پشاور (ڈیلی اردو) خیبرپختونخوا حکومت نے قبائلی ضلع کُرم میں جاری کشیدگی کے باعث علاقے میں آمدورفت کے لیے صوبائی حکومت کے ہیلی کاپٹر کے ذریعے ائیر سروس شروع کردی۔
وزیر اعلیٰ کی خصوصی ہدایت پر کرم کے لیے ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز کردیا گیا ہے۔ گزشتہ روز صوبائی حکومت کے ایم آئی 17 ہیلی کاپٹر نے پشاور سے کرم کےلیے 2 پروازیں کیں۔
پروازوں کے ذریعے پاراچنار سے 14 مریضوں سمیت 53 افراد پشاور منتقل کیے گئے جبکہ آج ہیلی کاپٹر کی پہلی پرواز کے ذریعے جرگہ ارکان اور سرکاری عملے پر مشتمل 16 افراد کو پاراچنار پہنچایا گیا۔
حکام کے مطابق آج دوسری پرواز کے ذریعے پاراچنار سے 27 افراد کو ٹل منتقل کیا گیا جبکہ تیسری پرواز کے ذریعے ٹل میں پھنسے افراد کو پاراچنار منتقل کیا جائے گا۔
آج مجموعی طور پر پانچ پروازیں ہونگی جن کے ذریعے سو سے زائد افراد کو منتقل کیا جائیگا۔صوبائی حکام کے مطابق علاقے میں ادویہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہیلی کاپٹر سروس جاری رہے گی۔
گزشتہ روز پشاور سے 1 کروڑ 20 لاکھ روپے مالیت کی 1850 کلوگرام ادویات پاراچنار پہنچائی گئیں۔ مجموعی طور کرم میں ادویہ کی فراہمی کے لیے ہیلی کاپٹر نے7 پروازیں بھریں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ تیسری پرواز کے ذریعے ٹل میں پھنسے افراد کو پاراچنار منتقل کیا جائے گا، آج مجموعی طور پر پانج پروازیں ہونگی جن کے ذریعے 100 سے زائد افراد کو منتقل کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ علاقے میں ادویات کی ضروریات پوری کرنے کے لئے وزیر اعلی کی خصوصی ہدایات پر ہیلی کاپٹر کے ذریعے ادویات کی فراہمی کا عمل بھی جاری ہے، کل پشاور سے 1850 کلوگرام ادویات پاراچنار پہنچائی گئیں۔ ان ادویات کی مالیت ایک کروڑ 20 لاکھ روپے ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ وزیر اعلی کی ہدایات کرم میں ادویات کی فراہمی کے لئے ہیلی کاپٹر کی کل سات پروازیں ہوئیں. ان پروازوں کے ذریعے 6 کروڑ روپے مالیت سے زائد کی ادویات کرم پہنچائی گئیں ہیں۔
بیان میں علی امین گنڈاپور کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ موجودہ صورتحال میں کرم کے عوام کو درپیش مشکلات کا بخوبی احساس ہے۔
صوبائی حکومت کرم کے عوام کو درپیش مشکلات کو کم کرنے کے لئے تمام دستیاب وسائل بروئے کار لا رہی ہے، بیان کے مطابق علی امین گنڈاپور نے کہا کہ کرم میں پائیدار امن اور لوگوں کو درپیش مشکلات کے مستقل حل کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جا رہے ہیں۔
واضح رہے کہ اپر کرم کے علاقے کونج علیزئی میں مسافر قافلے پر ہوئے حملے کا ایک پس منظر ہے۔ ضلع کرم کے صدر مقام پاڑہ چنار کا نواحی علاقہ بوشہرہ بظاہر خیبر پختونخوا کے کسی عام پہاڑی علاقے جیسا ہی ہے لیکن یہاں واقع زمین کا ایک ٹکڑا ایسا ہے جس پر ہونے والے تنازع میں اب تک درجنوں افراد کی جان جا چُکی ہے۔
اندازاً 100 کنال زمین کی ملکیت کا تنازع بوشہرہ کے دو دیہات میں مقیم قبائل کے درمیان ہے۔ اس علاقے میں رواں برس ہونے والے پُرتشدد واقعات کے باعث زمین کا یہ ٹکڑا درجنوں افراد کی جان لے چُکا ہے اور متعدد افراد ان جھڑپوں میں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ سیکیورٹی وجوہات کی وجہ سے پاراچنار جانے والی رابطہ سڑکیں بند ہیں جبکہ اس صورتحال کے باعث شہر میں ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں میں قلت پیدا ہوگئی ہے۔
خیبرپختونخوا کے شورش زدہ ضلع کرم کے شہر پاراچنار میں راستوں کی بندش کے باعث ادویات کی حالیہ قلت کی وجہ سے کم از کم 50 بچے ہلاک کر چکے ہیں۔
پاراچنار کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال میں موجود ماہر اطفال ڈاکٹر ذوالفقار علی نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ آج شہر میں 51 بچے ادویات کی قلت سے جان کی بازی ہار گئے ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ اکسیجن اور حرارتی آلات نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہورہی ہے۔
دریں اثنا سماجی رہنما فیصل ایدھی نے اموات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پاراچنار کے ہسپتالوں میں 50 سے زائد بچے علاج کی مناسب سہولیات نہ ہونے کے باعث انتقال کرچکے ہیں۔
یاد رہے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب سُنّی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسی طرز کا ایک حملہ شیعہ مکتبہ فکرِ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
ان حملوں کے بعد متعدد علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں 150 افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
شیعہ اور سُنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پاڑہ چنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ دو مہینوں سے بند ہے جبکہ ہزاروں افراد محصور ہو رہ گئے تھے۔
ضلع کرم کا شمار ملک کے قدیم ترین قبائلی علاقوں میں ہوتا ہے۔ غیر منقسم ہندوستان میں انگریز دورِ حکومت کے دوران 1890 کی دہائی میں اس قبائلی علاقے کو باقاعدہ طور پر آباد کیا گیا اور اس کے بعد یہاں زمینوں کی تقسیم شروع ہوئی۔
وہی زمینیں جن کی ملکیت پر آج اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ہر چند ماہ بعد درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ کرم کے زیادہ تر علاقوں میں لینڈ ریکارڈ آج تک موجود ہی نہیں ہے۔ لینڈ ریکارڈ نہ ہونے کی وجہ سے ضلع میں مختلف مقامات پر مختلف قبائل اور افراد زمین کے ٹکڑوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں۔
خیال رہے کہ پارہ چنار کی زمین کا شمار قبائلی علاقوں کی زرخیز ترین زمینوں میں ہوتا ہے۔ سرسبز و شاداب اور پانی کے وافر ذخائر ہونے کے باعث یہاں کی فصلیں اور باغات مشہور ہیں جن میں چاول، سبزیاں اور میوہ جات کو خصوصی شہرت حاصل ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ اس علاقے کے چاول اتنے مشہور ہیں کہ پرانے وقتوں میں لوگ انھیں کھانے کے لیے خصوصی طورپر اپنے رشتہ داروں کے ہاں کرم جایا کرتے تھے۔
آج یہاں زمین کا تنازع کم از کم پانچ مختلف مقامات پر موجود 10 یا اس سے زائد دیہاتوں اور قبائل کے درمیان ہے جن میں زمین کے ساتھ ساتھ مسلک کی تقسیم بھی موجود ہے یعنی متنازع زمینوں پر اہل تشعیع اور سنی مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا دعوی ہے۔
کرم میں فرقہ وارانہ اور زمین کی وجہ سے قبائل کے درمیان ہونے والے فسادات کی تاریخ تو پرانے ہے مگر اب ضلعی انتظامیہ کے مطابق گرینڈ جرگے نے حالات کو معمول پر لانے اور مسئلے کا حل تلاش کرنے کے لیے اپنی کوششیں شروع کر دی ہیں۔
پاکستان کی شمال مغربی سرحد پر واقع ضلع کرم کا جغرافیہ اور اس کی آبادی اسے منفرد بناتے ہیں۔ یہ پاکستان کا واحد قبائلی ضلع ہے جہاں آبادی کی اکثریت کا تعلق اہل تشیع سے ہے۔
پاکستان کے نقشے پر کرم کو تلاش کریں تو آپ کو علم ہو گا کہ یہ ضلع تین اطرف سے افغانستان جبکہ ایک جانب پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس کے جغرافیہ کی وجہ سے ہی کرم کو کسی زمانے میں ’پیرٹس بیک‘ یعنی ’طوطے کی چونچ‘ کہا جاتا تھا اور افغانستان میں سویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران اس ضلع کی سٹریٹیجک اہمیت میں اسی وجہ سے اضافہ ہوا۔
کرم پاکستان کے کسی بھی شہر کے مقابلے میں افغانستان کے دارالحکومت کابل کے قریب ترین ہے اور یہ افغانستان میں خوست، پکتیا، لوگر اور ننگرہار جیسے صوبوں کی سرحد پر بھی واقع ہے جو شیعہ مخالف شدت پسند تنظیموں داعش اور تحریک طالبان کا گڑھ ہیں۔
پارہ چنار پاکستان کے دیگر علاقوں سے صرف ایک سڑک کے راستے جڑا ہوا ہے جو لوئر کرم میں صدہ کے علاقے سے گزرتی ہے جو سُنی اکثریت آبادی پر مشتمل ہے۔
’کُرم‘ کا لفظ دریائے کرم سے منسوب ہے جو ضلع کے اطراف سے گزرتا ہے۔ یہ ضلع تین حصوں میں تقسیم ہے یعنی اپر کرم، سینٹرل اور لوئر کرم۔ اس علاقے کو کوہ سفید کے بلند و بالا پہاڑی سلسلہ افغانستان سے جدا کرتا ہے جو تقریباً سارا سال برف سے ڈھکا رہتا ہے۔
رواں سال اگست کے مہینے میں پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں ایک بار پھر شروع ہونے والے فرقہ ورانہ فسادات کے دوران کم از کم 43 افراد ہلاک اور 150 سے زیادہ زخمی ہوئے تو ساتھ ہی ساتھ چھ روز تک علاقے کے باسیوں کا رابطہ ملک کے دیگر حصوں سے منقطع ہو گیا۔