پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم کی اہم سڑکیں طویل دورانیے کے لیے بند ہونے کے باعث مقامی آبادی کی مشکلات میں ہو رہا ہے۔
کرم میں ایک جانب امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے تو دوسری جانب سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہاں کے رہنے والوں کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔
سڑکوں کی بندش اور کشیدگی کے باعث نقل و حمل میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے کرم میں گیس کے سلینڈر اور جلانے والی لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ کرم کے متحارب فریقین میں مستقل جنگ بندی اور تصفیے کے لیے جرگے کی کوششیں آخری اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔
ان کے بقول فریقین کے نمائندے منگل کو دوبارہ جرگے میں شرکت کرکے تصفیہ طلب معاملات پر اپنا اپنا موقف پیش کریں گے۔
سردی میں بڑھتی مشکلات
پاڑا چنار کے تحصیل مئیر مزمل حسین نے وائس اف امریکہ کے ساتھ فون پر بات چیت میں کہا کہ گزشتہ اکتوبر سے اہم شاہراہ کی بندش کے نتیجے میں اپر کرم میں حالات بہت خراب ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بازاروں میں خوردنی اشیا، گیس سلینڈر، ایندھن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔
تحصیل میئر کے مطابق سخت سردی میں ایک طرف گیس سلینڈر نایاب ہیں اور دوسری طرف جلانے کی لکڑی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
کرم کے مرکزی شہر پاڑا چنار میں آمدورفت کے راستوں کی بندش کے خلاف شہری احتجاجی دھرنا دے ررہے ہیں جو پیرکو چوتھے روز بھی جاری رہا۔
درجنوں مظاہرین پریس کلب کے باہر خیمے لگا کرشدید سردی میں بند راستے کھولنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
راستوں کی بندش سے متعلق کرم کے ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود کا کہنا ہے کہ مسافرگاڑیوں پر فائرنگ اور جھڑپوں کے باعث آمدورفت کے راستے سیکیورٹی خدشات کے باعث بند کئے گئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ بات چیت میں ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ وزیر اعلیٰ کے تشکیل کردہ جرگے میں مشاورت مثبت سمت میں جاری ہے۔
افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم میں کئی دہائیوں سے متحارب سنی اور شیعہ مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے قبائلیوں کے درمیان تصادم اور فسادات ہوتے رہے ہیں۔
تاہم رواں برس رواں اکتوبر اور نومبر میں پیش آنے والے واقعات کے بعد کشیدگی بڑھ کر مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گئی جس کے باعث علاقے کا نظامِ زندگی مفلوج ہوکر رہ گیا ہے۔
متحارب فریقین کے درمیان افہام و تفہیم اور تنازعات کے حل کے لیے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور، گورنر فیصل کریم کنڈی اور کالعدم پشتون تحفظ تحریک (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین نے جرگے تشکیل دے کر تصفیے کی کوششیں شروع کیں۔
تاہم وزیرِ اعلی علی امین گنڈاپور کے تشکیل کردہ جرگہ کو پہلے مرحلے میں یکم دسمبر سے جنگ بندی کرنے میں کامیابی حاصل کی تاہم حالات ابھی بھی بھی پوری طرح معمول پر نہیں آسکے ہیں۔
دواؤں کی فراہمی کا مسئلہ
گزشتہ دنوں سماجی کارکن فیصل ایدھی نے ایک بیان میں کہا تھا کہ کرم کے ضلعی انتظامی شہر پاڑا چنار کے اسپتال میں مبینہ طور پر ضروری ادویات نہ ملنے کے باعث نوزائیدہ بچوں کی ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔
تاہم وزیرِ اعلیٰ کے مشیر اطلاعات بیرسٹر سیف نے فیصل ایدھی کے مؤقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ سڑکوں کی بندش اور ضلعے میں امن و امان کی ابتر صورت حال کے نتیجے میں مشکلات ضرور ہیں تاہم حکومت پچھلے دو ہفتوں سے مسلسل ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ضروری ادویات فراہم کر رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کے افراد بھی ان حالات سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان حالات میں انسانی جانوں کا ضیاع فطری عمل ہے۔
فیصل ایدھی نے ذرائع ابلاغ کے ساتھ بات چیت میں دوائیاں نہ ملنے کے باعث 50 بچوں جبکہ پاڑا چنار کے صحافی علی افضال اور سجاد حیدر نے 30 بچوں کے ھلاکت کی اطلاعات دی ہیں۔
بیرسٹر سیف کا کہنا ہے کہ ادویہ پہنچانے اور وہاں سے مریضوں کو نکالنے کے لیے وزیراعلیٰ کا ہیلی کاپٹر وقف ہے جس کے ذریعے 180 سے زائد افراد پہنچائے گئے ہیں۔
ان کے بقول خواتین، بچوں، مریضوں اور بیرون ملک سفر کرنے والوں کو ترجیحی بنیادوں پر سہولت دی جا رہی ہے۔
’اہم پیش رفت متوقع ہے‘
وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وزیرِ اعلیٰ کے مشیر برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف کا کہنا ہے کہ کرم کے معاملے پر رواں ہفتے اہم پیش رفت متوقع ہے۔
ان کے بقول دو دن کے وقفے کے بعد جرگہ دوبارہ شروع ہوگا اور تنازع کے پائیدار حل کے لیے معاہدہ ہوجائے گا اور راستے کھلنے کی خوش خبر بھی جلد ملے گی۔
امن و امان کے لیے جاری کوششوں کے دوران ہی بگن میں پاڑا چنار سے تعلق رکھنے والے دو افراد کی ہلاکت کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔
بیرسٹر سیف نے کہا کہ یہ دونوں افراد اکیس نومبر کے حملے میں اغواء کئے گئے تھے اور بعد میں انہیں قتل کردیا گیا اور ان کی ہلاکت کی ویڈیو اب منظر عام پر آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے اس واقعے کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور متعلقہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
تحصیل میئر مزمل حسین نے بیرسٹر سیف کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ اتوار کے روز پیش آیا ہے۔
پاڑا چنار میں ایک قبائلی رہنما حاجی جمیل کے مطابق طویل انتظار کے بعد حالات سے تنگ آکر دونوں مسافر ہنگو سے پاراچنار جا رہے تھے کہ انہیں نامعلوم افراد نے اغواء کرکے نہایت بے دردی سے قتل کردیا ہے۔
پولیس حکام نے قتل کے بعد دونوں مسافروں کے سر کاٹ دینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ مبینہ قاتلوں نے قتل کی ویڈیو بھی جاری کی ہے۔