44

اسرائیل کا اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کرنے کا اعتراف، حوثیوں‌ کو بھی نشانہ بنائیں گے، وزیر دفاع

تل ابیب (ڈیلی اردو / بی بی سی )اسرائیل کی جانب سے پہلی مرتبہ اعتراف کیا گیا ہے کہ اس نے ہی ایران میں حماس کے سیاسی رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کیا تھا۔

اسرائیل کے وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے یہ اعتراف ایک تقریر کے دوران کیا جس میں انھوں نے ایرانی حمایت یافتہ حوثی رہنماؤں کو بھی اسی انداز میں نشانہ بنانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

رواں سال جولائی میں اسماعیل ہنیہ نئے ایرانی صدر مسعود پزشکیان کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے ایران کے دارالحکومت تہران میں موجود تھے جب انھیں ایک فضائی حملے میں نشانہ بنیا گیا۔ حماس اور ایرانی حکام نے فوری طور پر اس حملے کا الزام اسرائیل پر عائد کیا تھا تاہم اسرائیلی وزیر دفاع کے حالیہ بیان سے قبل اسرائیل کی جانب سے اس کی نہ تو کبھی تردید کی گئی تھی نہ تصدیق۔

اپنی تقریر کے دوران کاٹز کا کہنا تھا کہ اسرائیل حوثیوں پر ’سخت حملہ‘ کرے گا اور اس کی قیادت کا ’سر قلم‘ کر دے گا۔

انھوں نے حزب اللہ اور حماس کے رواں سال مارے جانے والے رہنماؤں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، ’جیسے ہم نے تہران، غزہ اور لبنان میں ہنیہ، [یحییٰ] سنوار، اور [حسن] نصر اللہ کے ساتھ کیا تھا، ہم حدیدہ اور صنعا میں بھی ایسا ہی کریں گے۔‘ حدیدہ اور صنعا حوثی جنگجوؤں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

اپنی موت سے قبل اسماعیل ہنیہ ایک فلسطینی سیاست دان اور فلسطینی گروپ حماس کے سیاسی بیورو کے سربراہ رہے۔ وہ دسویں فلسطینی حکومت کے وزیراعظم بھی تھے۔

ان کے سخت بیانات کے باوجود سیاسی مبصرین و تجزیہ کار عام طور پر غزہ سے تعلق رکھنے والے سخت گیر رہنماؤں محمد دیف اور یحییٰ سنوار کے مقابلے میں انھیں اعتدال پسند شخص کے طور پر دیکھتے تھے۔

سنہ 1989 میں اسرائیل نے تین سال کے لیے انھیں قید کیا تھا اور پھر حماس کے متعدد رہنماؤں کے ساتھ لبنان-اسرائیلی سرحد پر مرج الظہور میں جلاوطن کر دیا گيا تھا جہاں انھوں نے 1992 میں ایک پورا سال جلاوطنی میں گزارا۔

وہ قطر میں رہائش پذیر تھے اور طویل عرصے سے غزہ کی پٹی کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔

62 سالہ اسماعیل ہنیہ کو سنہ 2017 میں خالد مشعل کی جگہ حماس کے سیاسی شعبے کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں حماس کی حیرت انگیز کامیابی کے بعد فلسطینی اتھارٹی میں جب انھوں نے حکومت کی صدارت سنبھالی تھی تو ان کا نام اور ان کا عرفی نام (ابو العبد) سنہ 2006 سے ہی دنیا کو معلوم تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں