کابل + اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) افغانستان کی وزارتِ دفاع نے دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے ڈیورنڈ لائن کے اُس پار، یعنی پاکستان میں اہداف پر جوابی حملے کیے ہیں۔
طالبان کی وزارتِ دفاع کے ترجمان عنایت اللہ خوارزمی نے بی بی سی پشتو کو بتایا ہے کہ ’شرپسند عناصر اور ان کے حامیوں کے مراکز اور ٹھکانے، جہاں سے افغانستان کے خلاف حملوں کی تیاری کی جا رہی تھی کو جوابی حملوں میں نشانہ بنایا گیا ہے۔‘
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ یہ جوابی کارروائی کس نوعیت کی تھی اور اس سے کیا نقصان ہوا۔
پاکستان کی فوج اور وزارتِ خارجہ کی جانب سے تاحال اس حوالے سے کوئی ردِ عمل نہیں آیا ہے اور بی بی سی کی جانب سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔
واضح رہے کہ بدھ کو افغانستان کی وزارت دفاع کی جانب سے جاری بیان میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ پاکستان کی فوج نے افغان صوبہ پکتیکا کے ضلع برمل میں ‘فضائی حدود’ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک پناہ گزین کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے جس کے بعد جمعرات کو پاکستان کے دفتر خارجہ نے تصدیق کی کہ ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد پر پاکستان افغانستان سرحد سے متصل علاقوں‘ میں عسکریت پسندوں کے خلاف انٹیلی جنس پر مبنی آپریشن کیا گیا۔‘
اسلام آباد میں ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے تصدیق کی تھی کہ ’پاکستان اپنے عوام کے لیے متحد ہے۔ پاکستان نے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں آپریشن کیا ہے۔‘
ممتاز زہرہ بلوچ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’انٹیلیجنس پر مبنی آپریشن پاکستان کی طرف سے افغانستان کے سرحدی علاقوں میں کیا گیا۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ یہ کارروائی ’پاکستانی شہریوں کی سلامتی کو لاحق خطرات کی بنیاد‘ پر کی گئی۔
افغان طالبان حکومت نے اس ’فضائی کارروائی‘ پر اسلام آباد سے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا تھا اور اور خبردار کیا تھا کہ افغانستان کی علاقائی خودمختاری حکمران اسلامی امارت کے لیے سرخ لکیر ہے اور وہ اس کا جواب دے گا۔
خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے تعلقات میں تناؤ ہے اور اسلام آباد نے بار بار کابل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کرے جو افغان سرزمین کو پاکستان میں حملوں کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔