اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں حالات بدستور کشیدہ ہیں اس علاقے کو مُلک کے دیگر حصوں سے ملانے والی اہم ترین شاہراہ تقریباً دو ماہ سے بند ہے جسے تاحال آمدورفت کے لیے نہیں کھولا جا سکا۔
کُرم کے حالات اور اہم شاہراہ کی بندش کے خلاف ایک مذہبی جماعت کی جانب سے ملک کے بڑے شہروں میں دھرے کی کال دی گئی جس کے بعد کراچی، اسلام آباد اور کوئٹہ سمیت ملک کے کئی شہروں میں متعدد مقامات پر دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔
گذشتہ روز کرم کی صورتحال پر ہونے والا جرگہ بھی بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گیا۔ کمشنر کوہاٹ کے مطابق ’ایک فریق اہل تشیع کو قومی مشران کے پاس اسلحہ جمع کروانے پر اعتراض ہے جبکہ دوسرے فریق اہلسنت نے دو دن کا وقت مانگا ہے۔‘
کمشنر کوہاٹ کے مطابق ’جرگہ دوبارہ 31 دسمبر کو ہو گا۔ پائیدار معاہدہ کے لیے دونوں فریقین کا متفق ہونا لازمی ہے۔ معاہدہ نہیں ہوتا اور اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے مطابق اسلحہ جمع نہیں ہوتا تو روڈ کھولنا ممکن نہیں ہے۔‘
یاد رہے خیبر پختونخوا کے ضلع کُرم میں فرقہ وارنہ فسادات میں ناصرف 200 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں بلکہ نہ ختم ہونے والی کشیدگی کے باعث کُرم کے صدر مقام پاڑہ چنار جانے والی رابطہ سڑکیں بند ہیں جس کی وجہ سے اس علاقے میں ادویات، خوراک اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا بھی ہے۔
واضح رہے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب سُنّی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسی طرز کا ایک حملہ شیعہ مکتبہ فکرِ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
ان حملوں کے بعد اردگرد کے متعدد گاؤں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں کئی افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔