ظریف عمر کی ہلاکت: ’گھر والوں کے سامنے میرے بھائی کو سکیورٹی اہلکار لے گئے، پھر انکی لاش ملی‘

کوئٹہ (ڈیلی اردو/بی بی سی)پاکستان کے صوبے بلوچستان کے ضلع کیچ میں شہری ظریف عمر کی مبینہ تشدد سے ہلاکت کے خلاف سوموار کے روز ضلع ہیڈ کوارٹر تربت میں شٹر ڈائون اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔

ہڑتال کی کال ظریف عمر کے رشتہ داروں اور بلوچ یکجہتی کمیٹی نے دی تھی جبکہ تربت شہر میں ظریف عمر کی ہلاکت کے خلاف دھرنا بھی جاری ہے۔

ہڑتال کے سبب تربت شہر میں کاروباری مراکز بند رہے جبکہ مظاہرین کی جانب سے شاہراہوں پر رکاوٹیں کھڑی کی گئیں جس سے شہر میں ٹریفک کی روانی بھی متاثر ہوئی۔

ظریف عمر کے لواحقین اور بلوچ یکجہتی کمیٹی کا الزام ہے کہ وہ سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے تشدد سے ہلاک ہوئے ہیں۔

تاہم سرکاری حکام اس الزام کو مسترد کرتے ہیں۔

اس سے قبل جمعے کے روز ظریف عمر کی ہلاکت کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے ڈی بلوچ چوک پر دھرنا دیکر تربت کو دیگر شہر وں سے ملانے والی شاہراہ کو بند کر دیا تھا۔

تاہم بعد میں دھرنے کو تربت شہر کے اندر شہید فدا حمد چوک پر منتقل کیا گیا جہاں دھرنا اب بھی جاری ہے۔

’میرا بھائی بے قصور تھا، اسے تشدد کرکے ہلاک کیا گیا‘

37 سالہ ظریف عمر ضلع کیچ میں تمپ کے علاقے دازن کے رہائشی تھے۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں تین بیٹے اور ایک بیٹی شامل ہیں۔

تربت میں دھرنے میں شریک ان کی بہن گل شین بلوچ نے الزام لگایا ہے کہ ظریف کو مبینہ ایف سی اہلکار 26 دسمبر کو رات ایک بجے ان کے گھر سے اٹھا کر لے گئے تھے۔

’انھیں سارے گھر والوں کے سامنے ایف سی اہلکار اٹھا کر لے گئے اور پھر ان کی لاش دازین میں ایک گھر کے صحن میں پھینک دی گئی۔‘

ظریف کی لاش جمعرات کے روز ملی تھی۔

گل شین بلوچ دعویٰ کرتی ہیں کہ جب ظریف کے لواحقین تمپ میں متعلقہ حکام کے پاس ان کے قتل کا مقدمہ درج کروانے گئے تو انھیں بتایا گیا کہ ایف آئی آر ایف سی کے خلاف نہیں بلکہ نامعلوم افراد کے خلاف درج کی جائے گی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’میرا بھائی بے قصور تھا۔ اسے تشدد کرکے ہلاک کیا گیا۔‘

گل شین بلوچ کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ظریف عمر کے قتل کے ذمہ دار اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کے خلاف کاروائی کی جائے۔

ظریف عمر کی ہلاکت سے متعلق الرامات کے حوالے سے کمشنر مکران ڈویژن سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن ان سے رابطہ نہیں ہوسکا جبکہ ڈپٹی کمشنر کیچ نے نہ کال وصولی اور نہ ہی واٹس ایپ پر بھیجے گئے پیغام کا جواب دیا۔

تاہم سکیورٹی اداروں سے تعلق رکھنے والے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بات کرتے ہوئے ایف سی پر لگائے گَئے الزامات کو غلط اور بے بنیاد قرار دیا۔

اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ظریف کی موت آپسی لڑائی کی وجہ سے ہوئی ہے لیکن الزام ایف سی اور سکیورٹی اداروں پر لگایا جارہا ہے ۔

ان کا کہنا تھا کہ سکیورٹی اداروں میں احتساب کا نظام ہے اور ماضی میں ایسی نظیریں موجود ہیں کہ اگر سیکورٹی کے اداروں کے اہلکاروں پر کوئی الزام ثابت ہوئی ہے تو ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے اور کاروائیاں بھی ہوتی رہی ہیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں