کرم میں راستوں کی بندش؛ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج جاری

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) افغانستان سے ملحقہ قبائلی ضلع کرم کے مرکزی شہر پاڑہ چنار اور اس سے ملحقہ علاقوں کو پشاور کوہاٹ سے ملانے والی مرکزی شاہراہ کی بندش کے خلاف پاڑہ چنار اور کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

پاڑہ چنار روڈ کی مسلسل بندش کے خلاف سب سے زیادہ احتجاجی دھرنے اور مظاہرے ملک کے سب سے بڑے اور اہم تجارتی شہر کراچی میں ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں شہر میں آمدورفت بری طرح متاثر ہے۔

پاڑہ چنار میں شدید سردی کے باوجود مظاہرین کا دھرنا کئی روز سے جاری ہے۔

پاڑہ چنار کو پشاور سے ملانے والی شاہراہ اکتوبر کے وسط سے ہر قسم کی آمدورفت کے لیے بند ہے۔ اس بندش کے نتیجے میں علاقے میں خوردنی اشیا اور دیگر ضروریات زندگی کی شدید قلت ہے۔

رواں ماہ دسمبر کے پہلے روز کرم کے متحارب قبائلی فریقین میں کئی ہفتوں سے جاری مسلح تصادم کے بعد جنگ بندی کا معاہدہ طے پا چکا ہے۔ مگر دیرینہ تنازع کے مستقل حل کے لیے ابھی تک مستقل امن معاہدے پر دستخط نہیں ہوئے۔

وزیرِ اعلٰی علی امین گنڈا پور کی ہدایت پر خیبر پختونخوا حکومت کی اعلی سطحی ایپکس کمیٹی نے علاقے میں قیام امن کے لیے فریقین سے اسلحہ جمع کرنے اور تمام مورچے خالی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

لیکن اس فیصلے پر ایک طرف فریقین میں بیرسٹر محمد علی سیف کے بقول اختلاف پایا جاتا ہے اور دوسری طرف مذاکراتی عمل کے سبب عمل در آمد نہیں ہوا۔

کرم کے متحارب قبائلی فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط میں تاخیر پر مختلف قسم کی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔

اپر کرم کے ایک قبائلی رہنما نے نام نہ بتانے کی درخواست پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پاڑہ چنار روڈ کو محفوظ بنانے کی ضمانت کے بغیر اسلحہ جمع کرانے پر لوگوں کے تحفظات ہیں۔

رہنما نے مزید بتایا کہ لوئر کرم کے قصبے بگن اور ملحقہ علاقوں میں کالعدم شدت پسند تنظیم سے منسلک عسکریت پسندوں نے ٹھکانے قائم کر رکھے ہیں۔

اُن کے بقول یہی عسکریت پسند پاڑہ چنار آنے جانے والے لوگوں پر ہلاکت خیز حملے کر رہے ہیں۔

محمد علی سیف نے پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں بگن میں مسلح افراد کی موجودگی کی تصدیق کی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ کوہاٹ کمشنر ہاؤس میں جاری جرگے میں امن معاہدے پر دستخطوں کے بعد ان مسلح افراد کو بھی غیر مسلح کیا جائے گا۔

بیرسٹر سیف کا مزید کہنا تھا کہ کرم کے متحارب قبائلی فریقین اس دیرینہ تنازع کے مستقل حل کے لیے تقریباً متفق ہو چکے ہیں۔

بیرسٹر سیف کا کہنا تھا کہ ایک فریق نے اسلحہ جمع کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ دوسرے فریق نے ٹائم مانگا ہے اور امید ہے کہ منگل کو معاہدے پر دستخط ہو جائیں گے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اسلحہ واپس ہونے کے بعد ہی راستے کھولے جائیں گے۔

پشاور کے سینئر تجزیہ کار اور مقامی اخبار کے ایڈیٹر فرید اللہ خان نے کرم میں جاری کشیدگی کو نہایت خطرناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت کو اس مسئلے کو حل کرنا ہو گا۔

اُن کا کہنا تھا کہ ایک جانب یہ مسئلہ چل رہا ہے تو دوسری جانب سرحد پر افغان طالبان کے ساتھ کشیدگی ہے اور ٹی ٹی پی بھی ریاست کے لیے دردِ سر بنی ہوئی ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ریاستی اداروں کو غیر جانب دار رہتے ہوئے پشتون روایات کے مطابق جرگے کے فیصلوں کو اہمیت دینی چاہیے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس کے بعد ہلاکتوں کی مجموعی تعداد 130 تک پہنچ گئی تھی۔

ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال تاحال معمول پر نہیں آ سکی ہے اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں