پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں 2024 سیکیورٹی فورسز اور شہریوں کی ہلاکتوں کے اعتبار سے گزشتہ ایک دہائی کے مقابلے میں مہلک ترین سال ثابت ہوا ہے۔ سیاسی رہنما اور تجزیہ کار حکومتی اداروں کی ناکامی کے ساتھ ساتھ ملک میں جاری سیاسی کشمکش کو امن و امان کی بگڑتی صورتِ حال کا سبب قرار دیتے ہیں۔
بعض مبصرین کے مطابق وفاقی حکومت اور پاکستان تحریکِ انصاف کے مابین اختلافات اور اسلام آباد کے افغانستان میں برسرِ اقتدار طالبان سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے بھی پاکستان مخالف عسکریت پسندوں کو کارروائیوں میں تیزی لانے کا موقع ملا ہے۔
اسلام آباد کے تھنک ٹینک سینٹر فار ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز(سی آر ایس ایس) کی جاری کی گئی سالانہ سیکیورٹی رپورٹ برائے 2024 کے مطابق سیکیورٹی فورسز کے خلاف مجموعی طور پر 444 دہشت گرد حملوں کے دوران 685 اہلکار ہلاک ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق 2024 پاکستان کی سول اور ملٹری سیکیورٹی فورسز کے لیے ایک دہائی میں سب سے مہلک سال ثابت ہوا ہے۔
سالانہ سیکیورٹی رپورٹ 2024 میں سیکیورٹی اہلکاروں اور شہریوں کی مجموعی ایک ہزار 612 ہلاکتوں کو تشویش ناک قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ اس دوران سیکیورٹی فورسز کی کارروائیوں میں 934 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال ریکارڈ کی جانے والی مجموعی ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ 9 سال کے دوران سب سے زیادہ ہے۔ سال 2024 کے دوران 2023 کے مقابلے میں 66 فی صد سے زائد ہلاکتیں ہوئیں اور اوسطاً روزانہ تقریباً سات جانیں ضائع ہوئیں۔
سی آر ایس ایس کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں نومبر دیگر تمام مہینوں کے مقابلے میں مہلک ترین ثابت ہوا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2024 میں تشدد کے سب سے زیادہ واقعات خیبرپختونخوا میں پیش آئے ہیں جہاں 1616 اور بلوچستان میں 782 اموات ریکارڈ کی گئیں۔
تھنک ٹینک کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں 1166 دہشت گردانہ حملوں اور انسداد دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران عام شہریوں، سیکیورٹی اہلکاروں اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث افراد کی مجموعی طور پر 2546 اموات ہوئیں جبکہ مجموعی طور 2267 افراد زخمی ہوئے۔
پولیس کا 270 دہشت گرد ہلاک کرنے کا دعویٰ
خیبر پختونخوا پولیس نے 2024 سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ گزشتہ سال پولیس اور سیکیورٹی اداروں سے مقابلوں میں 270 دہشت گرد ہلاک اور 802 دہشت گرد گرفتار ہوئے جن میں 32 خطرناک اور مطلوب دہشت گرد بھی شامل تھے۔
پولیس کے مطابق ان خطرناک اور مطلوب دہشت گردوں میں 13 کو مردہ اور 19 کو زندہ حالت میں گرفتار کیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2024 میں بھتہ خوری میں ملوث 132 ملزمان جب کہ 13 اغواء کاروں کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
کے پی پولیس کے مطابق 2024 میں دہشت گردی کے مقدمات میں سزا کی شرح پچھلے سال کی نسبت 13 فی صد سے بڑھ کر 38 فی صد ہوگئی۔
رپورٹ کے مطابق 2024 میں خیبر پختونخوا پولیس کے 149 اہلکار عسکریت پسندوں کے حملوں میں ہلاک اور 232 زخمی ہوئے۔
سی آر ایس ایس کے رپورٹ کے مطابق 2023 کے مقابلے میں 2024 میں پر تشدد واقعات میں 66 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔
اسباب کیا ہیں؟
پشاور کے ایک مقامی اخبار کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی عرفان خان ماضی قریب میں اختیار کی گئی پالیسیوں کو 2024 میں بڑھتے ہوئے پر تشدد واقعات کی بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلح تنظیموں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے اور انہیں دوبارہ آباد کرانے کی پالیسی کے باعث پاکستان کو موجودہ صورت حال کا سامنا ہے۔
پاکستان کے سابق وزیر اعظم اور تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان اگست 2021 میں کابل میں افغان طالبان کے اقتدار پر قبضے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی) کے ساتھ بات چیت اور اس کے جنگجوؤں کو دوبارہ پاکستان میں آباد کرنے کی پالیسی کا دفاع کرتے رہے ہیں۔
ان کا مؤقف رہا ہے کہ کابل میں افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد ہزاروں جنگجو اور ان کے خاندان پاکستان واپس آنے کے لیے تیار تھے جن کی دوبارہ آباد کاری کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔
عمران خان کے مطابق اپریل 2022 میں ان کی حکومت ختم ہونے کے بعد سیکیورٹی فورسز کی ’غفلت‘ کے باعث ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا موقع ملا۔
حال ہی میں پاکستان کی فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی پرتشدد کارروائیوں میں سیکیورٹی اہلکاروں کی ہلاکت کو صوبے میں ’گورننس کے خلا‘ کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
تاہم اس پر ردِ عمل میں پی ٹی آئی رہنما اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کے حامی تھی اور پالیسی کی منظوری نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نے دی تھی۔
عمر ایوب کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوج کے ترجمان نے دہشت گردی کو کے پی گورننس سے جوڑا لیکن بلوچستان، پنجاب اور سندھ کو نظر انداز کردیا۔
افغان طالبان سے تعلقات میں کشیدگی
پاکستان کی حکومت اور فوج افغانستان میں ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف جنگجوؤں کی مبینہ موجودگی کو بھی بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجہ قراردیتے ہیں جب کہ طالبان حکومت ان الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
ان الزامات کی وجہ سے افغان طالبان اور اسلام آباد میں دوریاں بڑھ رہی ہیں اور حال ہی میں پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات میں مزید کم تر سطح پر آگئے ہیں۔
سینیئر صحافی عرفان خان کا کہنا ہے کہ پاکستان کی جانب سے افغان پالیسی ہمیشہ مبہم رہی ہے جس سے امن و امان اور تجارت کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ افغانستان میں طالبان کو اقتدار لانے میں پاکستانی کی مدد شامل تھی لیکن نہ صرف اس حکومت کے قیام کے بعد دو طرفہ تعلقات میں تنزل آیا ہے بلکہ خطے کے امن و امان کو بھی سنگین خطرات کا سامنا ہے۔
عرفان خان نے مزید کہا کہ افغانستان میں موجود 23 مسلح تنظیموں میں 17 پاکستان کے خلاف برسرپیکار ہے جن میں القاعدہ اور داعش جیسی تنظیموں کے دوبارہ فعال ہونے کی رپورٹس سامنے آتی رہتی ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ پاکستان نے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے افغان سرحد پر 100 ارب روپے سے زائد خرچ کرکے خاردار تار لگائی تھی تاہم ان کے بقول اس کے باوجود سرحد پار سے مسلح تنظیموں کی پاکستان میں کارروائیاں ہونے ایک بڑا سوال ہے۔