شام میں متعدد غیرملکی جنگجوؤں کیلئے اعلیٰ فوجی عہدے

دمشق (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے ایف پی) دمشق میں باغی گروپوں پر مبنی نئی عبوری حکومت کی کوشش ہے کہ باغی گروپوں کے پیچیدے مجموعے میں شامل جنگجوؤں کو پیشہ ور فوج میں تبدیل کیا جائے۔ اسی تناظر میں شامی ذرائع کا کہنا ہے کہ شامی فوج میں اعلیٰ عہدے پانے والوں میں چند ایغور بھی شامل ہیں جب کہ اردن اور ترکی کے ایک ایک جنگجو کو بھی فوجی عہدہ دیا گیا ہے، ان اطلاعات کی تاہم ابھی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

دوسری جانب چند جہادیوں کو سرکاری عہدے دینے کے اس اقدام پر بعض ممالک کی جانب سے تشویش بھی ظاہر کی گئی ہے۔ گو کہ شام کے عبوری سربراہ احمد الشرع نے بشارالاسد کے فرار اور دمشق پر قبضے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ ملک میں تمام گروہوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کریں گے، تاہم ان سخت گیر افراد کی حکومت میں شمولیت پر تشویش ظاہر کی جا رہی ہے۔شام کی عبوری حکومت کی جانب سے ان تقرریوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے شامی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ وزارتِ دفاع کی جانب سے اتوار کو اعلان کردہ تقریباً 50 فوجی عہدوں میں سے کم از کم چھ غیر ملکیوں کو دیے گئے۔ فی الحال ان افراد کی قومیتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ دسمبر کے آغاز میں ہزاروں سنی شامی باغیوں جن میں غیرملکی بھی شامل تھے، نے دمشق پر قبضہ کر لیا تھا اور یوں شام میں تیرہ برس سے بشارالاسد حکومت اور باغیوں کے درمیان جاری لڑائی ختم ہو گئی تھی۔

احمد الشرع ہیئت تحریر الشام کے رہنما جو اب شام کے عملی حکمران ہیں، نے اپنی تنظیم کو بنانے کی مہم کے تحت درجنوں غیر ملکی جہادی جنگجوؤں کو تنظیم سے باہر نکالا ہے۔

اتوار کو نشر کیے گئے اپنے بیان میں شرع نے کہا کہ نیا شام ”گروہوں اور ملیشیاؤں‘‘ کی ذہنیت سے نہیں چلایا جا سکتا۔

شام کے اس نئے حکمران نے تاہم اشارہ دیا ہے کہ غیر ملکی جنگجوؤں اور ان کے خاندانوں کو شام کی شہریت اور ملک میں رہنے کی اجازت دی جا سکتی ہے کیونکہ انہوں نے اسد کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔

دوسری جانب شامی وزارتِ دفاع نے اتوار کو فوج میں 49 نئی تقرریوں کا اعلان کیا، جن میں شامی مسلح دھڑوں کے متعدد رہنما شامل ہیں۔

شامی فوجی ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نئی تقریوں میں چھ غیر ملکی جنگجو شامل ہیں، جن میں تین کو بریگیڈیئر جنرل کا رینک دیا گیا اور کم از کم تین دیگر کو کرنل کا عہدہ دیا گیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب ان اطلاعات کی تصدیق یا تردید کے لیے شامی فوجی سے رابطہ کیا گیا تو اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں