کرم: صدہ میں دہشت گردوں نے ایک گداگر کو ذبح کردیا، سر سے فٹبال کھیلی، ویڈیو وائرل

واشنگٹن (ش ح ط) پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم میں دہشت گردوں نے ایک گداگر کو ذبح کردیا۔

پولیس ذرائع کے مطابق واقعہ کرم کی تحصیل صدہ میں پیش آیا جہاں ندیم نامی گداگر کو قتل کرنے کے بعد اس کا سر تن سے جدا کردیا گیا اور پھر اس کے سر کے ساتھ فٹبال کھیلا گیا۔

پولیس نے بتایا ہے گداگر کو ذبح کرنے والے شر پسندوں نے مقتول کے سر کی بے حرمتی کرتے ہوئے دلخراش ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل کر دی۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ندیم حسین نامی گداگر کو پاراچنار کا باشندہ ہونے کے شبہ میں قتل کر کے اس کا سر کاٹا گیا۔ اہلخانہ کا مزید کہنا تھا کہ ندیم حسین اپنے بیمار بچے کے لئے دوائی لینے صدہ شہر گیا جہاں بے دردی سے ہلاک کیا گیا۔

اہل خانہ کے مطابق ندیم حسین پشاور کے علاقے گلبہار کا رہائشی تھا۔

پاراچنار میں جاری احتجاجی مظاہرے سے بات چیت کرتے ہوئے ندیم حسین کے اہل خانہ نے بتایا کہ ”ہم مسافر اور فقیر لوگ ہیں؛ قبائل کے تنازعات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، لیکن اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر گلے کاٹنا کون سا اسلامی فریضہ ہے؟”

بعدازاں پاراچنار پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے حسن علی اور مقدر حسین سمیت ضلع کرم کے دیگر خانہ بدوشوں کا کہنا تھا کہ راستوں کی بندش کے باعث خانہ بدوش بھی مشکلات کا شکار ہیں؛ 25 سالہ ندیم حسین کے گھر بھی چند روز سے فاقے چل رہے تھے، اس کی چار بیٹیاں ہیں، اور ان میں سے ایک بچی شدید بیمار بھی تھی۔

بقول اُن کے گزشتہ روز ندیم حسین خوراک و علاج کی غرض سے صدہ بازار جا رہا تھا کہ خار کلے میں اسے پکڑ کر صدہ بازار میں بڑی بیدردی سے اس کا گلا کاٹ دیا گیا: “ہم مسافر اور فقیر لوگ ہیں؛ مقامی قبائل کے تنازعات سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، مگر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر گلے کاٹنا کون سا اسلامی فریضہ ہے؟”

انہوں نے مطالبہ کیا کہ حکومت واقعہ میں ملوث عناصر کو کڑی سزا دے، جبکہ مقتول کے خاندان کو شہدا پیکج دیا جائے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ندیم حسین کی میت ہیلی کاپٹر کے زریعے پشاور منتقل کی جائے گی جبکہ اس سے قبل گداگر مسافر کا جنازہ پاراچنار دھرنے میں پہنچا دیا گیا ہے۔

تحصیل چئیرمین مزمل حسین کا کہنا ہے کہ لوئر کرم میں انسانوں کو زبح کرنے والے دہشتگرد دندناتے پھر رہے ہیں، ان دہشت گردوں نے ایک مسافر کو شہید کرنے کے بعد اس کی ویڈیو بھی جاری کردی۔

انہوں نے آئی جی خیبر پختونخوا سے مطالبہ کیا کہ ملزمان کو گرفتار کرکے انصاف فراہم کیا جائے۔

کرم کی ضلعی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعے کا مقدمہ درج کرکے تفتیش شروع کر دی گئی ہے۔

اس سے قبل 22 دسمبر 2024 کو کرم کے علاقے بگن اوچت میں دو شیعہ مسافروں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔

پولیس کے مطابق یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب طویل انتظار کے بعد حالات سے تنگ آکر دونوں مسافر ہنگو سے پاراچنار جا رہے تھے کہ انہیں مسلح دہشت گردوں نے اغواء کرکے نہایت بے دردی سے ذبح کیا گیا۔

پولیس حکام نے قتل کے بعد دونوں مسافروں کے سر کاٹ دینے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ قاتلوں نے قتل کی ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی۔

پولیس کے مطابق مسافروں کی شناخت وسیم عباس اور اسحاق حسین کے ناموں سے ہوئی ہے۔ اور ہلاک شدگان کا تعلق شیعہ طوری قبیلے سے بتایا گیا ہے۔

پولیس نے بتایا ہے کہ جس مقام پر ان دو مسافروں کو گولی مار کر قتل کیا گیا ہے، اسی مقام پر 21 نومبر 2024 کو مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 50 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے۔

یاد رہے ضلع کُرم میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب سُنّی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسی طرز کا ایک حملہ شیعہ مکتبہ فکرِ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

ان حملوں کے بعد متعدد علاقوں میں فرقہ وارانہ فسادات پھوٹ پڑے جن میں 150 افراد اپنے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

شیعہ اور سُنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پاراچنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ دو مہینوں سے بند ہے جبکہ ہزاروں افراد محصور ہو رہ گئے تھے۔

ضلع کرم میں گزشتہ تین ماہ سے حالات کشیدہ ہیں۔ ان پرتشدد حملوں کی وجہ تنازعہ زمین کا ٹکڑا ہوتا ہے جو بڑھ کر فرقہ وارانہ تشدد کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ کارروائیاں اور حملے کسی ایک گاؤں یا علاقے تک محدود نہیں بلکہ پانچ سے چھ ایسے مقامات ہیں جہاں دونوں جانب سے بھاری ہتھیاروں سے حملے ہوتے ہیں۔

کرم میں ایک جانب امن و امان کی صورتِ حال مخدوش ہے تو دوسری جانب سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ یہاں کے رہنے والوں کو ایک اور مشکل کا سامنا ہے۔

سڑکوں کی بندش اور کشیدگی کے باعث نقل و حمل میں آنے والی رکاوٹوں کی وجہ سے کرم میں گیس کے سلینڈر اور جلانے والی لکڑیوں کی قیمتیں بھی بڑھ گئی ہیں۔

پاراچنار کے تحصیل مئیر مزمل حسین نے ڈیلی اردو کے ساتھ فون پر بات چیت میں کہا کہ گزشتہ اکتوبر سے اہم شاہراہ کی بندش کے نتیجے میں اپر کرم میں حالات بہت خراب ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بازاروں میں خوردنی اشیا، گیس سلینڈر، ایندھن اور دیگر ضروریاتِ زندگی کی شدید قلت پیدا ہوگئی ہے۔

تحصیل میئر کے مطابق سخت سردی میں ایک طرف گیس سلینڈر نایاب ہیں اور دوسری طرف جلانے کی لکڑی کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

شورش زدہ ضلع کرم کے شہر پاراچنار میں راستوں کی بندش کے باعث ادویات کی حالیہ قلت کی وجہ سے کم از کم 130 بچےہلاک ہوچکے ہیں۔

پاکستان کی مرکزی حکومت اور خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت سکیورٹی صورتحال کو بہتر اور پارہ چنار جانے والی سڑک کو کھلوانے کی کوشش تو کر رہی ہیں لیکن اب تک انھیں کوئی کامیابی نہیں مل سکی۔

ضلع کرم میں امن و امان کے لیے قائم امن جرگے نے فریقین میں جنگ بندی تو کرا دی لیکن تین ماہ سے بند راستے کھلوانے میں بدستور ناکام ہے۔

خیال رہے کہ کرم کی سرحدیں افغانستان کے صوبوں خوست ،ننگرہار اور پکتیاکے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع خیبر، اورکزئی اور شمالی وزیرستان سے ملتی ہیں۔

ضلع کُرم کا صدر مقام پارا چنار افغانستان کے دارالحکومت کابُل سے تقریباً 100 کلومیٹر دور ہے اور جب نائن الیون حملوں کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر چڑھائی کی تو وہاں سے لوگوں نے کُرم میں بھی نقل مکانی کی۔ جب پاکستان کے قبائلی علاقوں میں سنہ 2000 کے وسط میں ٹی ٹی پی کا قیام عمل میں آیا تو ان علاقوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ خیبر پختونخوا صوبے کا یہ واحد ضلع
کرمہ ے جہاں شیعہ آبادی بڑی تعداد میں آباد ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں