صنعا + واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی) یمن کے دارالحکومت صنعا پر منگل کو متعدد امریکی فضائی حملوں کے بعد حوثیوں کے ترجمان محمد عبدالسلام نے کہا ہے کہ ہم اپنے ملک کا دفاع کریں گے۔
امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے پیغام رسانی کی ویب سائٹ ایکس پر شائع ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ اس کے طیاروں اور بحری جہازوں نے 30 اور 31 دسمبر کی رات کو حوثیوں کی کمانڈ اینڈ کنٹرول کی سہولتوں اور جدید روایتی ہتھیار بنانے اور انہیں ذخیرہ کرنے کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
حملوں کا ہدف بننے والے ہتھیاروں میں میزائل اور ڈرونز شامل تھے۔
یمن کا یہ عسکری گروپ، جسے ایران کی سرپرستی حاصل ہے، بحیرہ احمر میں ایک سال سے زیادہ عرصے سے تجارتی بحری جہازوں پر حملے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کا یہ کہنا ہے کہ وہ یہ حملے غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک سال سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں فلسطینوں کی حمایت میں کر رہا ہے۔
ایرانی قوت میں کمی، لیکن حوثی بدستور ایک بڑا خطرہ
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ ایران کے علاقائی اتحادیوں کے خلاف اسرائیل کی تباہ کن مہمات نے، اس کی طاقت کو اور حملے کرنے کی صلاحیت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن یمن کے حوثی اسرائیل کے لیے بدستور ایک مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔
فلسطینی عسکری گروپ حماس اور لبنان کی شیعہ جنگجو تنظیم حزب اللہ ایک سال سے زیادہ عرصے تک کی جنگ کے بعد اور شام میں بشارالاسد کے زوال کے ساتھ ایران کے اسرائیل مخالف ’محور مزاحمت کو شدید دھچکہ لگا ہے۔ لیکن اسرائیل کے لیے مسئلہ اب بھی موجود ہے اور اب حوثی ابھر کر سامنے آ گئے ہیں جسے اسرائیل اپنے لیے فوری خطرے کے طور پر تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
حوثی دارالحکومت صنعا سمیت یمن کے ایک بڑے حصے پر قابض ہیں اور وہ بار بار اسرائیل پر میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہے ہیں۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اسرائیل کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یمن اس کی سرحد سے تقریباً دو ہزار کلومیٹر دور ہے اور وہ ایک اہم تجارتی آبی گزرگاہ بحیرہ احمر کے ساتھ واقع ہے۔ جس کی وجہ سے حوثیوں کے خلاف اسرائیل کے کسی بھی اقدام کا ردعمل معاملے کو مزید پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ کی جیو پولیٹکل صورت حال سے متعلق ایک تھنک ٹینک لی بیک کے انٹیلی جینس شعبے کے سربراہ مائیکل ہاروٹز کہتے ہیں کہ بہت سی وجوہات کی بنا پر حوثیوں کے خلاف لڑنا ایک مشکل مہم جوئی ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو فاصلہ ہے جو زیادہ حملے کرنے کی راہ میں ایک رکاوٹ ہے اور دوسرا یہ کہ اسرائیل کے پاس اس گروپ کے بارے میں انٹیلی جینس پر مبنی زیادہ معلومات نہیں ہیں۔
ہاروٹز نےکہا کہ ان کا خیال ہے کہ اسرائیل حوثیوں کے بارے میں وہی حکمت عملی اپنائے گا جو اس نے حزب اللہ کے خلاف استعمال کی تھی، یعنی اس گروپ کے اہم سربراہوں کو نشانہ بنانا اور ان کی اسمگلنگ کے راستوں میں دخل اندازی کرنا جیسا کہ اس نے لبنان اور شام میں کئی حملوں کی مدد سے کی تھی۔
تاہم ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کے باوجود اس چیز کی کوئی ضمانت نہیں ہے کہ اسرائیل حوثیوں کے حملوں سے محفوظ ہو جائے گا۔
اسرائیل کے پاس فضائی دفاع کے جدید نظام موجود ہیں جس کی وجہ سے میزائل اور ڈرون حملوں میں اسے کم سے کم نقصان پہنچتا ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر حوثی حملے روکے جانے کے باوجود اسرائیل کی شہری زندگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ یروشلم اور تل ابیب میں فضائی حملوں سے خبردار کرنے کے سائرن کثرت سے گونجتے ہیں جس کی وجہ سے ہزاروں اسرائیلیوں کو بنکروں میں پناہ لینی پڑتی ہے اور وہ بھی اکثر و بیشتر آدھی رات کو۔
فضائی دفاعی نظام سے جو اکا دکا میزائل بچ نکلتے ہیں اس سے شہری املاک اور لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔ گزشتہ ایک مہینے کے دوران حوثی میزائلوں سے 16 اسرائیلی زخمی ہو گئے تھے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ وہ ایران کے دہشت گردی کے نیٹ ورک کو توڑ دیں گے اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز حوثیوں کے تمام رہنماؤں کا شکار کھیلنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔
لیکن تل ابیب یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز کے سینئر فیلو گوزانسکی کہتے ہیں کہ اس کے باوجود حوثی اب بھی تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیل پر حملے کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جسے حل کرنا آسان نہیں ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مسئلے کا کوئی جادوئی حل نہیں ہے کیونکہ عرب خلیجی ریاستیں بھی ان سے خوف زدہ ہیں اور وہ بھی حوثیوں حملوں سے متاثر ہوتی ہیں۔ اور وہ اسرائیل کو احتیاط برتنے پر مجبور کرتی ہیں۔
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ٹرومین انسٹی ٹیوٹ کے ایک ریسرچر مناحم مرہاوی کہتے ہیں کہ حوثی ایک پریشانی اور خطرہ ہیں۔ تاہم اسرائیل کے لیے ان کے خطرے کی نوعیت محدود ہے۔ جب کہ انہوں نے عالمی سمندری تجارت کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔
مرہاوی کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد حوثیوں کے خلاف مشترکہ ردعمل کا امکان زیادہ ہے۔