غزہ (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز/اے پی) غزہ میں حماس کے طبی ذرائع نے یکم جنوری کو بتایا کہ غزہ پٹی کے شمالی علاقے میں اسرائیلی فضائیہ نے تازہ حملے کیے، جن کی وجہ سے کم از کم 15 فلسطینی ہلاک ہو گئے۔
حماس کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود باسل نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ”دنیا نے جشن کے ساتھ نئے سال کا استقبال کیا جبکہ ہم نے دیکھا کہ سن 2025 کا آغاز جبالیہ قصبے میں پہلے قتل عام کی صورت میں ہوا۔‘‘
جب اے ایف پی کی طرف سے اسرائیلی فوج سے رابطہ کیا گیا، تو اس نے کہا کہ وہ اس مبینہ حملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔
گزشتہ برس 7 اکتوبر کے اوائل سے اسرائیلی دفاعی افواج شمالی غزہ میں ایک بڑی زمینی اور فضائی کارروائی کر رہی ہیں، جن میں خاص طور پر جبالیہ اور اس سے ملحقہ پناہ گزین کیمپ کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ تازہ کارروائی کا مقصد اس علاقے میں حماس کے عسکریت پسندوں کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنے کی کوشش ہے۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ ان کارروائیوں میں سینکڑوں جنگجوؤں کو ہلاک کیا جا چکا ہے جب کہ علاقے میں امدادی کارکنوں کا الزام ہے کہ ان حملوں کی وجہ سے مارے جانے والے زیادہ تر عام شہری ہوتے ہیں۔
پیر کے روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متعدد ماہرین نے کہا تھا کہ شمالی غزہ میں یہ ‘محاصرہ‘ مقامی آبادی کو مستقل طور پر بے گھر کرنے کی کوشش کا حصہ معلوم ہوتا ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو غزہ میں شروع ہونے والے مسلح تنازعے کے نتیجے میں غزہ کی تقریباً 2.4 ملین کی آبادی کم از کم ایک بار بے گھر ہو چکی ہے۔
غزہ پٹی میں یہ مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔
اس حملے میں کم ازکم 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔ امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتیں حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہیں۔
فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے شہریوں پر کیے گئے اس لرزہ خیز حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، سمندری اور زمینی حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جن کے نتیجے میں فلسطینی ذرائع کے مطابق غزہ پٹی میں آج تک کم از کم 45,560 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
سال نو کے موقع پر استنبول میں مظاہرہ
نئے سال کے آغاز پر غزہ پٹی کے فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ترک شہر استنبول کے گالاٹا پل پر ہزاروں افراد جمع ہوئے۔
مظاہرین نے ترکی اور فلسطین کے جھنڈے لہرائے اور ‘آزاد فلسطین‘ کے حق میں نعرے لگائے۔ اس اجتماع کا اہتمام 300 سے زائد فلسطینی اور اسلامی گروہوں کے اتحاد ‘نیشنل وِل پلیٹ فارم‘ نے کیا تھا۔
ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے بیٹے بلال ایردوآن نے بھی اس احتجاج میں شرکت کی اور مظاہرین سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کے اقدامات قابل مذمت ہیں۔
بلال ایردوآن نے شام میں صدر بشار الاسد کے باغی فورسز کی جانب سے حال ہی میں اقتدار سے ہٹائے جانے کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے اس امید کا اظہار بھی کیا کہ شام کے بعد غزہ بھی فتح یاب قرار پائے گا۔
اسرائیلی ملٹری وکیل کے تحفظات
اسرائیلی ملٹری کے وکیل میجر جنرل یفات تومر یروشلامی نے کہا ہے کہ غزہ کے کچھ علاقوں میں کارروائی کے دوران اسرائیلی فوج کو زیادہ احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
اسرائیل کے آرمی ریڈیو اسٹیشن نے بتایا کہ یروشلامی نے ایک خط میں غزہ پٹی میں اسرائیلی کارروائیوں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ان حملوں کے دوران یہ یقینی بنایا جائے کہ کسی راہ چلتے شہری کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لیے اسرائیلی فوج کو زیادہ محتاط آپریشن کرنا چاہیے۔
اسرائیلی کمانڈر یارون فنکلمین کے نام تحریر کردہ اس خط میں یروشلامی نے سخت الفاظ استعمال کرتے ہوئے مزید لکھا کہ مثال کے طور پر بیت لاہیہ سے تقریباً 14 ہزار شہری نقل مکانی کر کے شمالی غزہ کے علاقے میں پہنچ چکے ہیں۔ تاہم اسرائیلی دفاعی افواج کو توقع تھی کہ اس علاقے میں صرف تین ہزار افراد موجود ہوں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسرائیلی فوج حملوں سے قبل غزہ کی ساحلی پٹی کے کچھ حصوں میں شہریوں کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں لگا سکی۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی چیف آف جنرل اسٹاف ہلیوی نے ان دعووں کی آزادانہ تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔