یمن کے حوثی باغی کون ہیں؟

برلن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) یمن کے حوثی باغیوں نے اسرائیل پر ایک بار پھر حملے تیز کر دیے ہیں۔ دسمبر میں ایرانی حمایت یافتہ اس گروپ نے اسرائیل پر متعدد میزائل اور ڈرون حملے کیے، جن کے نتیجے میں تل ابیب میں تقریباً دو درجن شہری زخمی ہوئے۔

اسی مہینے اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے یمن میں صنعاء کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر حملہ کیا جبکہ حوثی باغیوں کی جانب سے اسرائیل کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے کی کوشش میں داغے گئے ایک میزائل کو فضا میں ہی تباہ کر دیا گیا۔

حوثی گروپ، جسے جنوری 2024 میں امریکہ نے دوبارہ ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا، بارہا یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ اس کے حملے غزہ میں سرگرم فلسطینی جنگجو تنظیم حماس کی حمایت میں ہیں۔

حماس کو امریکہ، یورپی یونین، جرمنی، اسرائیل اور کئی دیگر ممالک دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ حوثی نومبر 2023 سے بحیرہ احمر میں بین الاقوامی بحری جہازوں کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان حملوں کی وجہ سے یمن میں حوثی باغیوں کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے، تاہم انہی حملوں کی وجہ سے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پرامریکی اور اسرائیلی حملے بھی دیکھے جا رہے ہیں۔

حوثی شمالی یمن کا ایک قبائلی گروپ ہے، جو سعودی عرب کی سرحد کے قریب واقع علاقوں میں زیادہ فعال رہا ہے۔ مذہبی طور پر حوثی شیعہ مسلمان ہیں، لیکن وہ زیدی شیعوں کی ایک مخصوص شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔ زیدی شیعہ یمن کی تقریباً ایک تہائی آبادی بنتے ہیں۔ ان کے عقائد مرکزی دھارے کے شیعہ مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ مثلاً وہ ایک مسیحا نما شخصیت، ”بارہویں امام‘‘ کی واپسی پر یقین نہیں رکھتے۔

واضح رہے کہ شیعہ مسلک میں بارہ اماموں کو پیغمبر اسلام کی اولاد سمجھا جاتا ہے جب کہ بارہویں امام کو غائب قرار دیا جاتا ہے، جن کا ظہور شیعہ عقیدے کے مطابق ایک دن ضرور ہو گا۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حوثی باغیوں کو بھرپور ایرانی معاونت دستیاب رہی ہے۔

حوثی باغی خود کو مزاحمتی محور (Axis of Resistance) کا حصہ سمجھتے ہیں۔ ایرانی قیادت میں مشرق وسطیٰ میں یہ ایک متحرک اتحاد ہے، جس میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور مختلف عراقی شیعہ جنگجو گروپ شامل ہیں، جو امریکہ اور اسرائیل کے مخالف ہیں۔

انیس سو نوے کی دہائی سے آج تک یمن کی تقریباﹰ تمام حکومتیں فلسطینی ریاست کی حمایت اور اسرائیلی قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں۔ گو کہ لگ بھگ ایسا ہی موقف مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک کا بھی رہا ہے، تاہم حوثی باغیوں کی جانب سے اس موقف کو زیادہ سختی سے اپنایا گیا ہے اور اسی بنا پر انہیں بہت سے گروہوں کی حمایت اور ہمددری بھی حاصل رہی ہے۔

جدید حوثی تحریک کی بنیاد حسین الحوثی نے رکھی، جو یمنی سیاست دان تھے اور سابق یمنی صدر علی عبداللہ صالح کی پالیسیوں اور مبینہ کرپشن کے خلاف تھے۔ حسین الحوثی کی نسبت سے اس گروپ کا نام رکھا گیا ہے۔

2011 کی عرب اسپرنگ میں جہاں دیگر عرب ریاستوں میں حکومت مخالف مظاہرے ہوئے، وہیں یمن میں بھی شدید مظاہروں کے نتیجے میں صالح کی حکومت ختم ہو گئی۔ حوثیوں نے نئی یمنی حکومت پر حوثیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کا الزام عائد کیا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس دور کے صدر منصور ہادی کی مرکزی حکومت امریکہ اور اسرائیل کے قریب ہے اور منصور ہادی سعودی عرب کے کٹھ پتلی رہنما ہیں۔
حوثیوں نے 2014 میں ہادی کی غیر مقبول حکومت کے خلاف بغاوت کی اور ملک کے بڑے حصے بشمول صنعاء پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران منصور ہادی صنعاء سے فرار ہو کر جنوبی شہر عدن جا پہنچے اور عارضی طور پر عدن ایک طرح سے عبوری دارالحکومت بن گیا۔

2015 میں سعودی قیادت والے عرب اتحاد نے یمنی حکومت کی حمایت میں حوثی باغیوں کے خلاف حملے شروع کر دیے، جس سے تنازعہ مزید بڑھ گیا۔

2022 میں فریقین نے چھ ماہ کی جنگ بندی پر اتفاق کیا۔ اگرچہ یہ مدت ختم ہو چکی ہے مگر یمن میں داخلی صورتحال نسبتاً پر سکون ہے۔ عملی طور پر تاہم اب بھی یمن بین الاقوامی طور پر تسلیم کردہ حکومت اور ملک کے ایک وسیع تر علاقے پر قابض حوثیوں باغیوں کے درمیان منقسم ہے۔

یونیورسٹی آف اوٹاوا کے ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مشرق وسطیٰ کے امور کے تجزیہ کار تھامس جونو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”گزشتہ چند سالوں میں ایک طرح سے حوثیوں نے خانہ جنگی جیت لی ہے، لیکن وہ شمالی یمن میں ایک انتہائی آمرانہ اور جابرانہ حکومت چلاتے ہیں۔‘‘ جونو کا مزید کہنا ہے، ”وہ اختلاف رائے بالکل بھی برداشت نہیں کرتے۔‘‘

یہ مضمون اصل میں 20 دسمبر 2023 کو جرمن زبان میں لکھا اور شائع کیا گیا تھا۔ حالیہ پیش رفت کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے اپ ڈیٹ کر کے دوبارہ شائع کیا جا رہا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں