پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں امن معاہدہ طے پا جانے کے باوجود مقامی قبائلی عمائدین اور مبصرین اس پر محتاط ردِعمل دے رہے ہیں۔
بعض قبائلی عمائدین کا کہنا ہے کہ امن معاہدے پر مکمل عمل درآمد کٹھن ہو گا۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ امن کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔
خیال رہے کہ بدھ کو کوہاٹ میں لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہنے والے گرینڈ جرگے نے امن معاہدے پر اتفاق کر لیا تھا۔ فریقین کی جانب سے 45، 45 افراد نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔
14 نکاتی معاہدے میں اسلحہ جمع کرانے، شاہراہوں کے تحفظ، فرقہ وارانہ واقعات کا خاتمہ، امن کمیٹیوں کے قیام، کالعدم تنظیموں کی حوصلہ شکنی جیسے نکات شامل تھے۔
حکومت نے اس پیش رفت کو بڑی کامیابی قرار دیا ہے، تاہم عمائدین اور مقامی افراد اسے مستقل امن کی جانب ایک کٹھن سفر سے تعبیر کر رہے ہیں۔
خیبرپختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی تو گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے۔ تاہم 21 نومبر کو مسافر گاڑیوں کے قافلے پر حملے میں 45 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
ان پرتشدد واقعات کے بعد علاقے میں صورتِ حال مزید خراب ہو گئی تھی اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی قلت ہے۔
جرگے کے فیصلے پر عمل درآمد ممکن ہو گا؟
پشاور یونی ورسٹی کے شعبہ تاریخ سے وابستہ لیکچرر زاہد علی کا کہنا ہے کہ ضلع کرم کے مسائل کی ایک طویل تاریخ ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ 1938 میں لکھنؤ کے شیعہ سنی فسادات کے اثرات نے پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔
اُن کے بقول تقسیم کے بعد پاکستان میں ان فسادات کا سلسلہ، خصوصاً ضلع کرم میں 1960 کی دہائی سے مختلف ادوار میں جاری رہا ہے اور نومبر 2024 تک اس میں ہزاروں جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔
خیال رہے کہ 1930 کی دہائی میں ہندوستان کی تقسیم سے قبل لکھنؤ میں جلوس نکالنے کے معاملے پر شیعہ، سنی فسادات پھوٹ پڑے تھے جس میں ہلاکتیں اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ کرم میں بھی اسی دوران فرقہ وارانہ واقعات ہوئے تھے۔
کوہاٹ گرینڈ جرگے پر بات کرتے ہوئے زاہد علی کا کہنا تھا کہ ماضی میں ہونے والے جرگوں کے فیصلوں پر عمل درآمد ہمیشہ ایک بڑا مسئلہ رہا ہے۔
ان کے بقول اس بار بھی معاہدے کی کامیابی کی راہ میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔
زاہد علی کہتے ہیں کہ ضلع کرم کی منفرد حیثیت اس کی آبادی اور جغرافیے کی وجہ سے ہے۔ یہاں شیعہ کمیونٹی کی اکثریت ہے۔ جب کہ ضلع کرم تین اطراف سے افغانستان کے صوبوں ننگرہار، پکتیا اور خوست سے متصل ہے۔
ان کے مطابق اس حساس محل وقوع میں اہلِ تشیع کے لیے اپنے ہتھیار حکومت کے حوالے کرنا ایک مشکل فیصلہ ہو گا۔
تاہم زاہد علی پراُمید ہیں کہ حکومت کی جانب سے اعتماد سازی کے اقدامات فریقین کو طویل مدتی جنگ بندی پر قائل کر سکتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے پہلا عملی قدم اہم سڑکوں کو کھولنا ہو سکتا ہے۔
‘کمیونٹی کے لوگ ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہیں’
جرگے میں اہلِ تشیع کی نمائندگی کرنے والے عنایت حسین طوری نے بتایا کہ 45 ارکان پر مشتمل ٹیم نے ان کی کمیونٹی کی نمائندگی کی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے عنایت حسین طوری نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی مجموعی سیکیورٹی صورتِ حال زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔
ان کے بقول بدقسمتی سے پاڑہ چنار ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں اہلِ تشیع مخالف جذبات میں شدت پائی جاتی ہے۔ یہ جذبات نہ صرف پاکستان بلکہ متصل افغان صوبوں میں بھی ہیں جس سے صورتِ حال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
عنایت حسین طوری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں قوم کے افراد حکومت کو ہتھیار حوالے کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جب تک افغان سرحد پر حالات کشید رہتے ہیں تب تک وہ تمام تر ہتھیار حکومت کے حوالے نہیں کر سکتے ہیں۔
اُن کے بقول انفرادی سطح پر ہتھیار اکٹھے کیے جا رہے ہیں، جو مقامی عمائدین کے سپرد کیے جائیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان ہتھیاروں کا استعمال کسی بھی موقع پر اہلِ سنت کے خلاف سامنے آیا تو روایات کے مطابق حکومت ان ہتھیاروں کو ضبط کرنے اور بھاری جرمانہ عائد کرنے کی مجاز ہو گی۔
عنایت حسین طوری کے مطابق اس وقت پاڑہ چنار میں ایک انسانی المیہ جنم لے رہا ہے، جہاں خوراک اور طبی سہولیات جیسی بنیادی اشیا ختم ہوتی جا رہی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ علاقے میں گیس کا کوئی نظام موجود نہیں، جب کہ برفباری کی وجہ سے پہاڑوں سے لکڑیاں بھی لانا ممکن نہیں رہا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ٹل-علی زئی کے درمیان 16 کلومیٹر طویل شاہراہ شدت پسندوں کے قبضے میں ہے جس کی بندش نے صورتِ حال کو مزید خراب کر دیا ہے۔
عنایت حسین طوری کا کہنا ہے کہ اس سڑک کی بحالی کے بغیر زندگی کا معمول پر آنا ممکن نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت نے ہفتے کے روز ٹل-پاڑہ چنار روڈ کو کانوائے کی صورت میں کھولنے کا اعلان کیا ہے۔ مقامی افراد کا ماننا ہے کہ اس اقدام سے اعتماد سازی کو فروغ دینے میں مدد ملے گی اور علاقے میں معمولاتِ زندگی بحال ہو سکیں گے۔
‘فریقین کو احساس ہے کہ قتل و غارت گاری سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا’
اس گرینڈ جرگے کے منتظمین میں شامل حاجی عزت گل پراُمید ہیں کہ اس جرگے کے اثرات دیر پا ہوں گے۔ حاجی عزت گل 2008 کے مری امن معاہدے کا بھی حصہ رہ چکے ہیں۔
خیال رہے کہ کرم میں بے امنی کے واقعات پر سن 2008 میں مری میں بھی ایک امن معاہدہ ہوا تھا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حاجی عزت گل نے کہا کہ فریقین کو اب حقیقی معنوں میں احساس ہو گیا ہے کہ قتل و غارت گری سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا۔
انہوں نے مزید کہا کہ بچوں کی تعلیم، روزگار، اور صحت پر اس تنازع کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجوہات ہیں جن کے باعث فریقین نے اس معاہدے پر کھلے دل سے دستخط کیے ہیں اور انہیں امید ہے کہ یہ امن دیرپا ثابت ہو گا۔
دوسری جانب جرگے میں اہل سنت کی نمائندگی کرنے والے حاجی کریم خان جو بگن کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں نے اپنے تحفظات کی بنیاد پر تاحال معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے حاجی کریم خان نے کہا کہ معاہدے کی دستاویز میں ان کے علاقے بگن کا کہیں ذکر تک نہیں، حالاں کہ یہاں قتل و غارت اور بدترین تشدد کا سامنا کیا گیا۔
ان کے بقول بگن تقریباً 30 ہزار افراد پر مشتمل علاقہ ہے، جہاں 21 نومبر کے فسادات کے بعد اہلِ تشیع کی جانب سے تقریباً 400 دکانیں اور ایک ہزار گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ معاہدے میں نہ تو متاثرین کے لیے کسی قسم کے معاوضے کا ذکر ہے اور نہ ہی تباہ شدہ گھروں کی بحالی کے حوالے سے کوئی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں، جو ان کے لیے شدید مایوسی کا باعث ہیں۔
واضح رہے کہ 21 نومبر کو پشاور سے پاڑہ چنار جانے والے کانوائے کو بگن کے علاقے میں نشانہ بنایا گیا تھا جس کے نتیجے میں 40 سے زائد افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کے ردِعمل میں اگلے دن مشتعل افراد نے بگن گاؤں پر حملہ کیا، جہاں پولیس کے مطابق سینکڑوں دکانوں اور گھروں کو نذرِ آتش کیا گیا تھا۔
اس واقعے کے بعد علاقے کی صورتِ حال مزید کشیدہ ہو گئی تھی۔
ملک کریم خان کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے تحفظات کو نہیں سنا جاتا۔ ان کی قوم معاہدے پر دستخط کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے گی۔
ان کے مطابق بگن کے متاثرین کے نقصانات کے ازالے اور بحالی کے اقدامات کے بغیر امن معاہدہ حقیقی معنوں میں مؤثر نہیں ہو سکتا۔