سعودی عرب نے 6 ایرانیوں کے سر قلم کر دیئے، تہران کا سخت احتجاج

ریاض + تہران (ڈیلی اردو/ایس پی اے/ڈی پی اے/رائٹرز/اے ایف پی) سعودی عرب نے منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں سزائے موت پانے والے چھ ایرانیوں کے سر قلم کردیئےl.

سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ایس پی اے نے بدھ کے روز وزارت داخلہ کے حکام کے حوالے سے اطلاع دی کہ سزا پانے والے چھ ایرانی شہریوں کا خلیجی ساحلی شہر دمام میں سرقلم کردیا گیا۔

سرکاری نیوز ایجنسی کے مطابق انہیں مملکت میں حشیش اسمگل کرنے کا الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

سرکاری نیوز ایجنسی ایس پی اے نے سعودی وزارت داخلہ کا ایک بیان شائع کیا، جس میں کہا گیا کہ “خفیہ طور پر چرس” مملکت میں داخل کرنے کے جرم میں ان چھ افراد کو خلیجی ساحل پر واقع دمام میں موت کی سزا دی گئی۔

ایران کا سخت رد عمل

ایرانی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق موت کی سزاؤں کے رد عمل میں ایران نے تہران میں سعودی عرب کے سفیر کو طلب کر کے “سخت احتجاج” کیا۔

تہران میں وزارت خارجہ نے کہا کہ ایران نے سعودی سفیر کو طلب کر کے “بین الاقوامی قانون کے اصولوں اور روایات” کی “ناقابل قبول” خلاف ورزی کے خلاف “سخت احتجاج” کیا۔

وزارت نے ایک بیان میں کہا، “تہران میں سعودی عرب کے سفیر کو طلب کیا گیا” اور تہران نے ریاض کے اس اقدام کے خلاف اپنے “سخت احتجاج” سے آگاہ کیا، جسے اس نے “ناقابل قبول” اور “بین الاقوامی قوانین کے اصولوں اور روایات ” کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔

ایرانی میڈیا کی رپورٹوں میں کہا گیا ہے کہ “ایران کی طرف سے سخت احتجاج کا ایک نوٹ، جس میں دونوں ممالک کے درمیان مجموعی عدالتی تعاون کے تحت اس اقدام کی عدم مطابقت کو اجاگر کیا گیا ہے، سعودی حکام کو بھیجا گیا اور اس معاملے پر مناسب وضاحت فراہم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا۔”

سعودی عرب میں موت کی سزاؤں پر عمل میں اضافہ

سعودی عرب میں 2024 میں کم از کم 338 افراد کو موت کی سزائیں دی گئیں، جو 2023 میں ریکارڈ کی جانے والی 170 پھانسیوں کے مقابلے میں جہاں ایک بڑا اضافہ ہے، وہیں یہ کئی دہائیوں میں سب سے زیادہ ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل، جو 1990 کی دہائی سے ہی مملکت میں پھانسیوں کے اعداد و شمار جمع کر رہی ہے، کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے سن 2022 میں 196 اور 1995 میں 192 افراد کو موت کی سزا دی گئی تھی۔

ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پچھلے سال سزائے موت پانے والوں میں سے کم از کم 117 مجرم منشیات کے اسمگلر تھے۔

دو سال قبل مملکت نے منشیات کے جرائم کے لیے سزائے موت کے استعمال پر عائد اپنی پابندی کو ختم کر دیا تھا، جس کے بعد سے منشیات کے اسمگلروں کو موت کی سزا دینے کا سلسلہ جاری ہے۔

سن 2023 میں حکام نے انسداد منشیات کی ایک انتہائی معروف مہم شروع کی تھی، جس کے تحت بہت سی چھاپے مار کارروائیاں کرنے کے ساتھ ہی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔

سن 2024 میں سزائے موت پانے والے 338 افراد میں سے 129غیر ملکی تھے اور یہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے۔ اس میں 25 یمنی، 24 پاکستانی، 17 مصری، 16 شامی، 14 نائجیرین، 13 اردنی اور سات ایتھوپیائی باشندے شامل ہیں۔

مارچ 2022 میں، سعودی عرب نے “دہشت گردی کے جرائم” کے لیے ایک ہی دن میں 81 افراد کو موت کی سزا دی تھی، جس پر بین الاقوامی سطح پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔

ایمنسٹی کے مطابق، صرف چین اور ایران نے ہی 2023 میں سعودی عرب سے زیادہ لوگوں کو پھانسی دی، جنہوں نے ابھی تک اپنے 2024 کے اعداد و شمار شائع نہیں کیے ہیں۔

سعودی حکام کا کہنا ہے کہ امن عامہ کو برقرار رکھنے کے لیے سزائے موت ضروری ہے اور اپیل کے تمام راستے ختم ہونے کے بعد ہی اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں