کرم: متحارب فریقوں میں امن معاہدے کے بعد احتجاجی مظاہرے ختم

پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے متحارب فریقوں کے درمیان امن معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد مجلس وحدت مسلمین (ایم ڈبلیو ایم) نے ملکی سطح پر اپنے احتجاجی دھرنوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

پاراچنار میں مرکزی شاہراہ کی بندش کے ردعمل میں اس تنظیم نے کراچی میں شاہراہ فیصل اور شاہراہ پاکستان جیسے متعدد اہم مقامات پر احتجاجی مظاہرے جاری شروع کر رکھے تھے، جس کی وجہ سے ٹریفک میں خلل پڑ رہا تھا اور روزمرہ کے مسافروں کو سخت مشکلات کا سامنا تھا۔

کوہاٹ میں جس امن معاہدے پر کرم کے حریف قبائل نے دستخط کیے ہیں، اس میں دونوں جانب سے ہتھیار ڈالنے اور بنکر گرانے کی شرط بھی رکھی گئی ہے اور امن معاہدے کے بعد ہی ایم ڈبلیو ایم نے کراچی اور اسلام آباد جیسے شہروں میں اپنے دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا۔

بدھ کی دیر رات کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنما علامہ راجہ ناصر عباس نے کہا کہ کئی مہینوں سے کرم میں سڑکیں بند ہیں، جس سے مقامی آبادی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ انہوں اس بات کو بھی اجاگر کیا کہ راستوں کی بندش کی وجہ سے ضروری ادویات تک دستیاب نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں لوگ مر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، “کرم کی صورتحال غزہ جیسی ہے، ہم نے ان مظلوموں کے لیے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کی طرف سے توجہ نہ ملنے کے بعد ہم نے کراچی سے گلگت بلتستان تک ملک بھر میں احتجاج شروع کیا تھا۔”

علامہ راجہ ناصر عباس نے حکومت پر زور دیا کہ وہ امن معاہدے کی شرائط پر تیزی سے عمل درآمد کرے اور جب تک اس پر مکمل طور پر عمل نہیں ہوتا، اس وقت تک کرم کی اہم سڑکوں کو بند رکھنے کی تجویز دی۔

پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ احتجاج فوری طور پر ختم کر دیا گیا ہے اور امداد لے کر 70 سے 80 گاڑیوں کا قافلہ ہفتے کو روانہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم کرم کے لوگوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ کوئی خون رائیگاں نہ جائے۔

متحارب گروہوں میں امن معاہدہ

اس سے پہلے بدھ کے روز ہی خیبر پختونخوا کی حکومت نے کہا تھا کہ تشدد کے درمیان جنگ بندی کے لیے تین ہفتوں سے زیادہ کی کوششوں کے بعد بالآخر کرم کے متحارب فریقوں نے امن معاہدے پر دستخط کر دیے۔

کے پی حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے جاری ایک بیان میں اس پیشرفت کا اعلان کیا تھا۔

بیرسٹر سیف نے کہا کہ امن معاہدہ ضلع میں “امن اور ترقی کے نئے دور” کا آغاز کرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد ہی ہنگامہ خیز ضلع میں امن و سلامتی بحال ہو جائے گی اور ہفتے کو پاراچنار کے لیے قافلے بھی روانہ ہوں گے۔

صوبہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اس پیشرفت کو سراہتے ہوئے کہا کہ فریقین کے درمیان معاہدے پر دستخط کرم مسئلہ کے پائیدار حل کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مسئلے کے پرامن حل کے لیے صوبائی حکومت نے کوششیں کی، جس کا مثبت نتیجہ نکلا۔

ان کا کہنا تھا، “میں اس اہم قدم کا خیر مقدم کرتا ہوں اور تمام شراکت داروں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ یہ معاہدہ کرم کے مسئلے کے پائیدار حل کے لیے ایک مضبوط بنیاد فراہم کرے گا۔”

انہوں نے کہا کہ یہ معاہدہ فریقین کے درمیان نفرت پھیلانے والے عناصر کے لیے بھی واضح پیغام ہے کہ خطے کے لوگ امن پسند ہیں۔ “میں فریقین سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ نفرت پھیلانے والے عناصر کو مسترد کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ ہماری کوشش اور خواہش ہے کہ کرم کے عوام کو درپیش مسائل جلد حل ہوں اور وہاں معمولات زندگی بحال ہوں۔”

وزیراعلیٰ نے کہا کہ لڑائی اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، مسائل اور تنازعات کو ہمیشہ مذاکرات سے حل کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، “تشدد ہمیشہ تشدد کو جنم دیتا ہے، جو فریقین، علاقے یا حکومت کے مفاد میں نہیں ہے۔”

واضح رہے کہ ایک گرینڈ جرگہ امن معاہدے کے لیے کام کر رہا تھا، جس کے نتیجے میں کرم میں سڑکیں دوبارہ کھولی جائیں گی۔ منگل کے روز ان کوششوں میں اس وقت رکاوٹ پیدا ہوئی، جب لوئر کرم کے دو نمائندے دستیاب نہیں تھے اور اسی کی وجہ سے متحارب فریقوں کے درمیان ایک معاہدے کی تکمیل میں تاخیر ہوئی۔

کرم میں کئی دہائیوں پرانے زمینی تنازعات سے پنپنے والی جھڑپوں کے دوران گزشتہ ماہ کے دوران کم از کم 130 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ طویل سڑکوں کی ہفتوں تک بندش کی وجہ سے علاقے میں خوراک اور ادویات کی قلت کی اطلاعات ہیں۔ اپر کرم میں بھی پاراچنار کے رہائشی بھی اس کے خلاف 20 دسمبر سے دھرنا دے رہے تھے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں