واشنگٹن (ش ح ط) پاکستان کے شورش زدہ قبائلی ضلع کرم کے محصور ہیڈ کوارٹر پاراچنار و دیگر علاقوں میں امداد لے کر جانے والے ایک قافلے پر کیے گئے دہشت گردانہ حملے میں ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود سمیت 7 اہلکار زخمی ہو گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق صبح 10 بج کر35 منٹ پر کوہاٹ سے قافلہ روانہ ہونے سے قبل مذاکراتی ٹیم سڑک کھلوانےکیلئے مذاکرات کر رہی تھی کہ اسی دوران تقریباً 40 سے 50 مسلح شرپسندوں نے ڈپٹی کمشنر جاوید محسود اور سرکاری گاڑیوں پر فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر کرم، پولیس کے 3، ایف سی کے 2 اہلکار اور دو سویلین زخمی ہوئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ڈپٹی کمشنر اور دیگر شدید زخمی اہلکاروں کو سی ایم ایچ ٹل سے بذریعہ ہیلی کاپٹر پشاور منتقل کیا گیا ہے۔ منتقل کیا گیا ہے۔ترجمان کے پی حکومت بیرسٹر ڈاکٹر سیف کا کہنا ہے کہزخمی ڈپٹی کمشنر کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور متتقل کیا گیا ہے۔بیرسٹر ڈاکٹر سیف نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر جاویداللہ محسود کو مزید طبی سہولیات سی ایم ایچ پشاور میں دیے جارہے ہیں۔
ترجمان کے پی نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر کو تین گولیاں لگی ہے تاہم حالت خطرے سے باہر ہے جب کہ ڈپٹی کمشنر کے ایک محافظ کو بھی سی ایم ایچ پشاور منتقل کیا گیا ہے۔
مقامی حکام کے مطابق تین روز قبل گو کہ فریقین کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا، اس کے باوجود یہ خونریز واقعہ پیش آیا۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے امن کمیٹیوں کی گارنٹی کے باوجود فائرنگ کا ہونا تشویشناک ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق قافلے پر دہشت گردوں نے بگن کے مقام پر فائرنگ کی۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ فائرنگ کے علاوہ قافلے پر پتھراؤ بھی کیا گیا۔ پولیس کے مطابق قافلے پر آدھے گھنٹے تک فائرنگ ہوتی رہی ہے۔
واقعے کے بعد بگن کے علاقے میں مزید نفری طلب کرکے علاقے کا محاصرہ کرلیا گیا ہے۔
بعد ازاں، مشیر اطلاعات خیبرپختونخوا نے بتایا کہ ڈپٹی کمشنر اور زخمی اہلکار کو ٹل سی ایم ایچ سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کردیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جاوید اللہ محسود کو ضروری سرجری کے بعد پشاور منتقل کیا گیا ہے، جہاں انہیں مزید طبی سہولیات فراہم کی جارہی ہیں جب کہ ڈپٹی کمشنر کو 3 گولیاں لگی ہے تاہم حالت خطرے سے باہر ہے۔
پختونخوا حکومت کے مشیر بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ کرم کے لیے امدادی سامان لے کر جانے والا 75 ٹرکوں کا قافلہ ٹل کے قریب روک دیا گیا ہے، جبکہ ٹل اسکاؤٹس کے رضاکار وہاں موجود ہیں، قافلہ جلد دوبارہ کرم کے لیے روانہ ہوگا۔
تین ماہ کے تعطل کے بعد ہفتے کو کوہاٹ سے پاراچنار کیلئے سیکورٹی کی حصار میں قافلہ روانہ ہونا تھا جس میں خوراک کی اشیا سمیت دیگر سامان اور ادویات شامل ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یہ حملہ ”ایک سازش‘‘ تھا، جس کا مقصد نئے سال کے پہلے دن طے پانے والی جنگ بندی کو نقصان پہنچانا تھا، جس پر دونوں طرف کے قبائلی رہنماؤں کی مشاورتی مجلس نے اتفاق کیا تھا۔
انہوں نے کہا، ”شرپسند عناصر نے امن معاہدے کو نقصان پہنچانے کے لیے فائرنگ کی۔‘‘
یاد رہے ضلع کرم م میں فرقہ وارانہ فسادات کی نئی لہر رواں برس اکتوبر میں اُس وقت شروع ہوئی تھی جب سُنّی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے قافلے پر ہونے والے ایک حملے میں 16 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد اسی طرز کا ایک حملہ شیعہ مکتبہ فکرِ سے تعلق رکھنے والے افراد کی گاڑیوں کے قافلے پر ہوا تھا جس میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد 22 نومبر کو ضلع کے مختلف جگہوں پر جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں جس میں 200 سے افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
شیعہ اور سُنی قبائل کے درمیان جھڑپوں کے سبب پشاور سے پارا چنار جانے والی سڑک تقریباً گذشتہ تین مہینوں سے بند ہے۔ اور راستوں کی بندش سے کرم میں اشیائے خورونوش اور ادویات کی شدید قلت ہے۔
واضح رہے کہ 12 اکتوبر سے اب تک مناسب علاج نہ ملنے اور ادویات کی عدم فراہمی کے باعث 130 سے زائد بچے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔
پاکستان ایک سنی اکثریتی ملک ہے، لیکن شیعہ مسلمان مجموعی آبادی کا 10 سے 15 فیصد ہیں۔ کرم میں دونوں برادریاں ایک دوسرے کے ساتھ رہتی ہیں، مگر زمین کے تنازعات کی وجہ سے لڑائیاں اکثر فرقہ وارانہ تناؤ میں بدل جاتی ہیں۔