کرم میں فرقہ وارانہ کشیدگی برقرار؛ پارا چنار سمیت ضلع بھر میں دفعہ 144 نافذ

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) فرقہ وارانہ کشیدگی اور فسادات سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلعے کرم میں امن معاہدے کے بعد بھی حالات معمول پر نہیں آئے اور اتوار کو ضلع میں دو ماہ کے لیے دفعہ 144 نافذ کر دی گئی ہے۔

اتوار کو خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل سیکریٹری ہوم اینڈ ٹرائبل افیئرز نے دفعہ 144 نافذ کرنے کا اعلامیہ جاری کیا۔

دفعہ 144 کے نفاذ کے ساتھ ہی ضلع کرم میں اسلحے کی نمائش اور پانچ افراد سے زائد کے اجتماع پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

پولیس کے مطابق بگن میں فائرنگ کے واقعے میں ڈی سی کرم سمیت سات افراد زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کا مقدمہ محکمۂ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) تھانے میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمے میں 25 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔

ہفتے کرم کو تھل ہنگو سے ملانے والے قصبے بگن کے مقام پر فائرنگ کا ایک واقعہ پیش آیا تھا جس میں ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود مظاہرین کو دھرنا ختم کرانے اور پاڑہ چنار جانے والے قافلے کے لیے سڑک کھلنے کے لیے مذاکرات کر رہے تھے۔

وائس آف امریکہ کے نمائندے شمیم شاہد کے مطابق کرم میں گزشتہ برس اکتوبر میں شروع ہونے والی کشیدگی کے باعث پہلے ہی کرفیو جیسی صورتِ حال ہے۔

ضلعی انتظامیہ کی جانب سے دفعہ 144 نافذ کرنے کے بعد مقامی افراد کے مطابق کئی علاقوں میں حکام کرفیو نافذ کرنے کے اعلانات بھی کر رہے ہیں۔

کرم کی صورتِ حال پر دھرنوں میں مجلسِ وحدت مسلمین، مظاہرین اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے ڈی سی کی تبدیلی کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔

اتوار کو صوبائی حکومت نے فائرنگ میں زخمی ہونے والے ڈپٹی کمشنر کرم جاوید اللہ محسود کو تبدیل کر کے ان کی جگہ اشفاق خان کو تعینات کرنے کا اعلامیہ جاری کردیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر پر فائرنگ کا واقعہ ایسے موقعے پر پیش آیا جب امن معاہدے کے تحت ہفتے سے اپر کرم میں کھانے پینے کا سامان، ادویات اور دیگر ضروری اشیا کی ترسیل کی جانی تھی۔

فریقین کے درمیان یکم جنوری کو ایک امن معاہدہ طے پایا تھا جس کے تحت اراضی کے تنازعات کو اراضی کمیشن کے ذریعے حل کرنے، ایک ماہ کے اندر تمام نجی بنکرز ختم کرنے جیسے نکات پر اتفاق کیا گیا تھا۔

امن معاہدے کے باوجود پاڑہ چنار سے مرکزی شاہراہ تک اتوار کے روز بھی ہر قسم آمد و رفت کے لیے بند رہی اور شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

راستوں کی بندش کی وجہ سے بالائی کرم کی چار لاکھ آبادی علاقے میں محصور ہے اور اشیائے خور و نوش کی ترسیل کی فراہمی معطل ہے۔

مقامی ذرائع کے مطابق راستوں کی طویل بندش کے باعث اشیائے ضروریات کی قلت پیدا ہوگئی ہے اور سردی کی شدت میں اضافے کی وجہ سے بحران مزید شدت اختیار کرسکتا ہے۔

کرم کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق 80 گاڑیوں پر مشتمل قافلہ تاحال متاثرہ علاقوں کے لیے روانہ نہیں ہوسکا ہے۔ روڈ کلیئر ہوتے ہی قافلہ روانہ کیا جائے گا۔

ضلعی انتظامیہ کے مطابق شدید سردی میں ڈرائیور اور کنڈیکٹرز روڈ کھولنے کا انتظار کر رہے ہیں۔

تاہم انجمن پاڑا چنار کا کہنا ہے کہ 80 گاڑیوں پر مشتمل قافلے میں سب سامان تاجر برادری کا ہے جسے حکومت امدادی قافلے کا نام دے رہی ہے۔ لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے حکومت جلد از جلد اس سامان کو پاڑا چنار کی جانب روانہ کر دے۔

ادھر اتوار کو بھی ضلع کرم میں راستوں کی بندش، بدامنی اور دہشت گردی کے خلاف شدید سردی کے باوجود کرم پریس کلب کے سامنے احتجاجی دھرنا جاری ہے۔

دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ سڑکیں کھولنے اور محفوظ بنانے تک دھرنا جاری رہے گا۔

بگن میں ڈی سی کرم پر فائرنگ کے واقعے کے بعد ہفتے کو رات گئے وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی زیر صدارت صوبائی حکومت کے اعلیٰ حکام کا ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا گیا تھا جس میں صوبے کے چیف سیکرٹیری، انسپکٹر جنرل پولیس اور دیگر حکام شریک ہوئے تھے۔

اجلاس کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق فیصلہ کیا گیا کہ امن معاہدے کے بعد علاقے کے لوگ معاہدے کی خلاف ورزی کے ذمے دار ہیں۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ فائرنگ کے واقعے میں ملوث افراد کو قانون کے حوالے کیا جائے گا اورتمام ملوث افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کرکے اُنہیں فوری گرفتار کیا جائے گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں