ایران میں گزشتہ برس 901 افراد کو پھانسی دی گئی، اقوام متحدہ

نیو یارک (ڈیلی اردو/اے ایف پی) اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے ایران میں پھانسی کی سزاؤں میں تیزی سے اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ ایران مختلف جرائم میں سزائے موت کے منتظر افراد کی مزید پھانسیوں کو روکے۔

ترک نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ہم ایک بار پھر ایران میں موت کی سزا پانے والوں کی تعداد میں ہر سال اضافہ دیکھ رہے ہیں، جو انتہائی پریشان کن ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ایران پھانسیوں کی اس بڑھتی ہوئی لہر کو روک دے۔

انسانی حقوق کے لیے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر کے دفتر کے مطابق

2024 میں مبینہ طور پر کم از کم 901 افراد کو پھانسی دی گئی جن میں سے 40 افراد کی سزاؤں پر دسمبر کے ایک ہفتے کے دوران عمل درآمد کیا گیا۔

بیان میں ایران میں سزائے موت کے ریکارڈ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ حالیہ عشروں میں موت کی سب سے زیادہ سزائیں 2015 میں دی گئیں تھیں اور اس سال یہ تعداد 972 تھی۔ بعد کے برسوں میں اس تعداد میں کمی آئی، لیکن 2022 سے اس تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

ہائی کمشنر کی ترجمان لز تھروسل نے جنیوا میں ایک بریفنگ کے دوران صحافیوں کو بتایا کہ 2023 میں کم ازکم 853 افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔ اور 2024 میں یہ تعداد 901 تک پہنچ گئی جو خطرناک طور پر حیران کن حد تک زیادہ ہے۔

انسانی حقوق کے دفتر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال پھانسی کی سزائیں زیادہ تر منشیات سے منسلک جرائم پر دی گئی تھیں۔ لیکن ایسے لوگوں کو بھی سولی پر چڑھایا گیا جن کا تعلق حکومت مخالفین اور 2022 میں ہونے والے بڑے پیمانے کے مظاہروں سے تھا۔

یہ ملک گیر مظاہرے 16 ستمبر 2022 میں ایک 22 سالہ کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے خلاف شروع ہوئے تھے۔ مہسا کو ایران کی اخلاقی پولیس نے مبینہ طور پر حجاب نہ پہننے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

ایران کے بارے میں انٹرنیشنل فیکٹ فائنڈنگ مشن نے مارچ 2024 کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل میں پیش کی جانے والی اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ مستند اعداد و شمار کے مطابق کئی مہینوں تک جاری رہنے والے ان مظاہروں میں 551 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں 49 خواتین اور 68 بچے بھی شامل تھے۔

یہ مظاہرے ایران کے 31 میں سے 26 صوبوں میں جاری رہے تھے۔

ترجمان تھروسل نے بتایا کہ گزشتہ سال خواتین کی پھانسیوں میں بھی اضافہ ہوا اور یہ تعداد کم از کم 31 تھی جو پچھلے 15 برسوں کے دوران سب سے بڑی تعداد ہے۔

ترجمان کے مطابق سزا پانے والی زیادہ تر خواتین کو اپنے شوہروں کو قتل کرنے کا مجرم ٹہرایا گیا تھا۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ طے کرنا بہت مشکل ہے کہ انتہائی نوعیت کی یہ سزائیں کتنی آزادانہ اور منصفانہ تھیں جس پر ہمیں تشویش ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے کے ہائی کمشنر نے کہا کہ ہم کسی بھی طرح کے حالات سے منسلک سزائے موت کی مخالفت کرتے ہیں کیونکہ یہ سزا زندگی کے بنیادی حقوق سے مطابقت نہیں رکھتی اور بے گناہ لوگوں سے زندگی چھیننے کے ناقابل قبول خطرے میں اضافہ کرتی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں