پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے) صوبہ خیبر پختونخوا کے جنوبی ضلع لکی مروت میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے 17 ملازمین کو اغوا کر لیا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کی صبح قبول خیل میں پیش آیا۔ جس علاقے میں ان افراد کو اغوا کیا گیا ہے وہاں یورینیم کی کان کنی ہوتی ہے اور یہ منصوبہ اٹامک انرجی کمیشن کے تحت کام کرتا ہے۔
لکی مروت میں پولیس حکام نے اغوا کیے جانے والوں میں جمعرات کی شام آٹھ اہلکاروں کو بازیاب کرانے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ دیگر افراد کی بازیابی کے لیے سکیورٹی فورسز کا علاقے میں آپریشن جاری ہے۔
لکی مروت پولیس کے مطابق بازیاب کروائے گئے آٹھ افراد میں سے تین افراد زخمی ہیں جنھیں سول ہسپتال لکی مروت منتقل کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا پولیس کے ریجنل پولیس افسر (آر پی او) بنوں عمران شاہد نے برطانوی خبر رساں ادارے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے آٹھ ملازمین کو بازیاب کروانے کی تصدیق کی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ دیگر ملازمین کی بازیابی کے لیے سکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری ہے، فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے اور باقی نو افراد کو بھی خیریت سے بازیاب کروا لیا جائے گا۔
یاد رہے کہ مقامی پولیس کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کی صبح قبول خیل میں پیش آیا۔ جس علاقے میں ان افراد کو اغوا کیا گیا ہے وہاں یورینیم کی کان کنی ہوتی ہے اور یہ منصوبہ اٹامک انرجی کمیشن کے تحت کام کرتا ہے۔
آر پی او بنوں عمران شاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جمعرات کی صبح مسلح شدت پسندوں نے ملازمین کو اسلحے کی نوک پر گاڑی سے اتار کر اغوا کر کے نا معلوم مقام کی طرف لے گئے تھے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ بازیاب کروائے گئے 8 ملازمین میں سے تین زخمی ہیں جنھیں سول ہسپتال لکی مروت میں علاج فراہم کیا جا رہا ہے۔
ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر آزاد نے بی بی سی کو بتایا کہ ان زخمیوں کو گولیاں لگی ہیں لیکن ان کی حالت خطرے سے باہر ہے۔
اس سے قبل مقامی پولیس اہلکاروں نے بتایا تھا کہ تمام ملازمین ایک ویگن میں جا رہے تھے کہ پائندہ خان کے مقام پر مسلح افراد ان کی گاڑی روک کر ملازمین کو اپنے ساتھ لے گئے جبکہ گاڑی کو آگ لگا دی۔
مقامی افراد نے بی بی سی کو بتایا کہ ملازمین کو لکی مروت سے میانوالی جانے والے راستے سے اغوا کیا گیا۔ یہ علاقہ صوبہ پنجاب کے علاقے عیسی خیل کی سرحد کے قریب واقع ہے۔
کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے ان افراد کے اغوا کی ذمے داری قبول کی ہے۔
سرکاری طور پر اس واقعے کے بارے میں کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔ تاہم کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس واقعے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے اس سے متعلق ایک ویڈیو بیان بھی جاری کیا ہے۔
مغویوں نے حکومت سے شدت پسندوں کے مطالبات تسلیم کرنے کی اپیل کی ہے۔ تاہم مغویوں نے اس ویڈیو پیغام میں اغوا کاروں کے مطالبات کے بارے میں کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔
ٹی ٹی پی نے اٹامک انرجی کمیشن کے ورکرز کے قومی شناختی کارڈز اور سروس کارڈز بھی ذرائع ابلاغ کو جاری کر دیے ہیں۔
وفاقی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والا اٹامک انرجی کمیشن آف پاکستان میں فوجی اور سول مقاصد کے لیے جویری ٹیکنالوجی پر ریسرچ کا ادارہ ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ ہفتے کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے ایک بیان میں پاکستانی فوج کے اقتصادی منصوبوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی گئی تھی۔
لکی مروت میں گذشتہ ڈیڑھ سال سے حالات کشیدہ ہیں اور یہاں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ لکی مروت کے علاقے غزنی خیل میں دو روز پہلے نامعلوم افراد نے دو پولیس اہلکاروں کو فائرنگ کر کے ہلاک کیا تھا جس کے بعد مقامی امن کمیٹی اور پولیس کے اہلکاروں نے مسلح حملہ آوروں کا پیچھا کیا اور جھڑپ میں ایک مسلح شخص کو ہلاک کر دیا تھا۔
لکی مروت کے مختلف علاقوں میں شدت پسندوں کی موجودگی کی اطلاعات موصول ہوتی رہتی ہیں جن کے خلاف کارروائی بھی کی جاتی رہی ہیں۔
گذشتہ روز تھانہ گمبیلا کی حدود میں انسداد دہشت گردی کے محکمے کے اہلکاروں اور پولیس نے ایک مشترکہ کارروائی میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان ٹیپو گل گروپ کے تین شدت پسندوں کو جھڑپ میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
حالیہ مہینوں میں صوبہ خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
پاکستانی طالبان افغان طالبان کے اتحادی ہیں۔ 2021 میں ہمسایہ ملک افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں واپس آنے کے بعد پاکستانی طالبان کے حوصلے بھی ہوئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان طالبان کے رہنما اور جنگجو افغانستان میں چھپے ہوئے ہیں۔