پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم کے علاقے پاڑہ چنار کے لیے امدادی سامان لے جانے والا تقریباً پچاس گاڑیوں پر مشتمل قافلہ جو بائی پاس ٹل پر کھڑا تھا آج وہاں سے نکل ہنگو اور کوہاٹ چلا گیا ہے۔
پاڑہ چنار کے حلقے سے منتخب ممبر اسمبلی علی ہادی کے مطابق جمعے کے روز ٹرانسپٹورز نے انھیں بتایا کہ ہمیں دھمکیاں مل رہی ہیں جس بنا پرہم قافلہ لے پاڑہ چنارکر نہیں جا سکتے ہیں۔
علی ہادی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ٹرانسپورٹرز کو تسلی دی جارہی ہے کہ اس کانوائے کی مکمل حفاظت کی جائے گی اور ان پر کوئی بھی آنچ نہیں آئے گی۔ جس کے بعد ممکنہ طور پر اگلے دو دن کے بعد میں ان کا قافلہ پاڑہ چنار جا سکتا ہے۔‘
علی ہادی کے مطابق پہلے ہی کوئی بھی ٹرانسپورٹر پاڑہ چنار کے تاجروں کا مال لے کر نہیں جارہا تھا۔ جس وجہ سے میں خود ممبرصوبائی اسمبلی ہونے کے باوجود پشاور کے مال کے اڈوں پر گیا اور وہاں پر نہ صرف ان کو یقین دہانی کروائی بلکہ ان کو معمول سے زیادہ کرایہ بھی ادا کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ٹرانسپورٹرز تیار ہوئے تھے اور دو دن پہلے قافلہ گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس صورتحال میں مندوری میں دھرنا جاری ہے۔
’ اپنے اس مطالبے کے پورا ہونے تک وہ دھرنا ختم کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ حکومت ان لوگوں سے بھی بات چیت کررہی ہے کہ راستے میں رکاوٹیں ختم ہوں تاکہ قافلہ چل سکے۔‘
’بنکرز ختم کیے جائیں اور اسلحہ واپس لیا جائے اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا‘
بگن کے تاجر رہنما محمد شاہین کے مطابق سب حکومت والے یہ کہہ رہے ہیں کہ روڈ کھول دیں۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ ہمارا مطالبہ بہت سادہ ہے اور سیدھا ہے کہ بگن کے ساتھ کی جانے والی زیادتی کا ازالہ کیا جائے۔ متاثرین کو زر تلافی دی جائے اور حملہ کرنے والوں کو گرفتار کیا جائے۔‘
محمد شاہین کا کہنا تھا کہ ہمارے احتجاج کو 21 روز ہوچکے ہیں۔ مگر ابھی تک حکومت نے ہمارے مطالبات کو حل کرنے پر زور نہیں دیا ہے۔
جرگہ ممبر اور گذشتہ دو روز مذاکرات کے بعد قافلے کو گزرنے کی اجازت دینے والے بگن کے مشر حاجی کریم کا کہنا تھا کہ امن معاہدہ ہوچکا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب اس امن معاہدے پر مکمل عمل در آمد ہو۔
انھوں نے کہا کہ بنکرز ختم کیے جائیں اور اسلحہ واپس لیا جائے اس کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا ہے۔ اب جب امن ہوگا تو پھر راستے محفوظ ہوں گے اور سب کچھ ہوگا اور اگر امن نہیں ہوگا تو پھر حالات کا تبدیل ہونا مختلف ہے۔
پاڑہ چنار انجمن تاجران کے صدر نذیر احمد کا کہنا تھا کہ ہمیں کہا گیا کہ مال تیار کرو اور ٹرکوں کا انتظام کر ہم نے کردیا۔
’کئی گنا زیادہ کرائے پر ٹرک حاصل کیے۔ ٹرک کھڑے ہیں تو ان کو روزانہ دیہاڑ بھی ادا کررہے ہیں جو کہ چودہ ہزار روپیہ ہے اس کے باوجود ہمیں نہیں پتا کہ کانوائے کب چلے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ تاجر اپنے علاقے کے لوگوں کے لیے نقصان برداشت کررہے ہیں۔ پاڑہ چنار میں اس سے پہلے جو کانوائے گیا تھا اس میں ضرورت کی اشیا بہت کم تھیں۔ پاڑہ چنار اور اردگرد کے علاقوں میں اس وقت پیڑول، ڈیزل، گھی، آٹا، دالیں، لکڑی، سلنڈرز اور ادویات کی بے انتہا ضرورت ہے۔
ایک اور ہول سیل ڈیلر عباد شمس کا کہنا تھا کہ ’کئی دونوں سے کوہاٹ سے ٹل اور ٹل سے کوہاٹ گھوم پھر رہے ہیں۔ میرا دو ٹرکوں پر مال ہے جس میں کچھ دالیں اور آٹا ہے۔ اس وقت تاخیر کی وجہ سے اس کی قیمت خرید ہی بڑھتی جارہی ہے۔ اگر حساب کتاب کریں تو ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات ملا کر ان اشیا کی قیمت خرید اصل قیمت خرید سے بھی دوگنا ہوچکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاڑہ چنار میں تو غریب لوگ بستے ہیں اب وہ لوگ پہلے ہی مسائل کا شکار ہیں وہ کس طرح اتنی مہنگی اشیا خردیں گئیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہماری تو بس ہوگئی ہے۔
بی بی سی نے وزیر اعلیٰ کے معاون بیرسٹر سیف، کمشنر کوہاٹ اور ڈپٹی کمشنر کرم سے رابطہ کیا مگر جواب نہیں ملا۔