دمشق (ڈیلی اردو/اے پی/سانا/اے ایف پی) شامی انٹیلیجس سے تعلق رکھنے والے ایک ذریعے نے شام کی سرکاری نیوز ایجنسی سانا کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز اور انٹیلیجنس نے ”سیدہ زینب کی درگاہ کے اندر بم دھماکے کی کوشش کو ناکام بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے۔‘‘ اس ذریعے کا جس کا نام ظاہر نہیں کیا گیا، مزید کہنا تھا کہ اس سلسلے میں متعدد گرفتاریاں کی گئی ہیں۔
ادھر شامی وزارت داخلہ کے مطابق داعش کے چار شدت پسندوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے، جبکہ ان کے قبضے سے دو عدد رائفلز، تین عدد دھماکہ خیز ڈیوائسز، کئی ہینڈ گرنیڈ اور سمارٹ فونز برآمد کرلیے گئے ہیں۔
وزارت داخلہ کے مطابق گرفتار ہونے والے میں سے دو افراد کا تعلق لبنان سے ہے جبکہ ایک کو فلسطینی پناہ گزین کیمپ کا رہنے والا بتایا گیا ہے۔
یہ مزار شیعہ مسلمانوں کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اور یہاں پر پیغمبر اسلام کی نواسی سیدہ زینب کی قبر موجود ہے جہاں بڑی تعداد میں شیعہ مسلمان حاضری دیتے ہیں۔
سیدہ زینب کے روضے پر آنے والے زائرین ماضی میں داعش کے حملوں کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ داعش سنی اسلام کی شدت پسندانہ تشریح کی پیروکار ہے اور شیعہ مسلمانوں کو اسلام سے خارج تصور کرتی ہے۔
سال 2023ء میں عاشورہ کے دن سے ایک روز قبل اسی علاقے میں ایک موٹر سائیکل پر نصب بم کے دھماکے میں کم از کم چھ افراد ہلاک جبکہ درجنوں دیگر زخمی ہو گئے تھے۔
لبنانی وزیر اعظم نجیب میکاتی کا دورہ دمشق
ادھر لبنانی وزیر اعظم نجیب میکاتی آج ہفتہ 11 جنوری کو شامی دارالحکومت دمشق پہنچے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2011ء میں شامی خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے لبنانی وزیر اعظم کا دمشق کا یہ اولین دورہ ہے۔
ان کا دورہ ایک ایسے موقع پر ہو رہا ہے جب شام میں باغیوں کی طرف سے طویل عرصے سے اقتدار میں رہنے والے بشار الاسد کی حکومت ختم کیے جانے کے بعد شام اور لبنان تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اے ایف پی کے مطابق توقع ہے کہ میکاتی نئے شامی رہنما احمد الشرع سے ملاقات کریں گے۔
میکاتی کا یہ دورہ لبنانی پارلیمان کی طرف سے فوجی سربراہ جوزف عون کو ملکی صدر منتخب کیے جانے کے چند روز بعد ہو رہا ہے۔ یہ عہدہ گزشتہ دو برس سے خالی تھا اور سیاسی اختلافات کی وجہ بنا ہوا تھا۔
حزب اللہ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان ڈیڈ لاک کے سبب اس سے قبل صدر کے انتخاب کی درجن بھر کوششیں ناکام ہو چکی تھیں۔ تاہم اب اسرائیل کے ساتھ جنگ میں ایران نواز گروپ حزب اللہ کے کمزور ہونے کے بعد یہ معاملہ طے پایا ہے۔
شام تین دہائیوں تک لبنان میں سب سے اہم طاقت رہا تھا مگر شام کے سابق وزیر اعظم رفیق الحریری کی ایک بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد بین الاقوامی دباؤ کے سبب شام نے 2005ء میں لبنان سے اپنے فوجی واپس نکال لیے تھے۔
سیدہ زینب کی دمشق آمد
متعدد مسلم مؤرخین اور شیعہ روایات کے مطابق واقعہ کربلا 61 ہجری (سنہ 680 عیسوی) میں پیش آیا۔ اس جنگ میں امام حسینؑ، اُن کے اہلخانہ اور حامیوں کی ایک بڑی تعداد ماری گئی تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد یزید بن معاویہ کی فوج امام حسینؑ کی دو بہنوں حضرت زینبؑ اور حضرت ام کلثومؑ سمیت دیگر عورتوں اور بچوں کو قید کر کے کوفہ لے آئی۔
تاریخی حوالوں کے مطابق یہ تمام قیدی 12 محرم کو کوفہ پہنچے اور روایات کے مطابق اس سفر کے دوران قیدیوں کے ساتھ ظالمانہ اور ہتک آمیز سلوک روا رکھا گیا۔
کوفہ میں اسیری کے دوران سیدہ زینب اپنے ساتھ قید بنو ہاشم سے تعلق رکھنے والے اسیران کے رہنما کے طور پر اُبھریں۔ بعدازاں انھیں کوفہ کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے دمشق بھیج دیا۔
روایات میں آتا ہے کہ دمشق میں سیدہ زینب اور یزید بن معاویہ کا آمنا سامنا ہوا اور یہیں حضرت زینبؑ نے اپنا مشہور خطبہ دیا جس میں انھوں نے یزید پر کڑی تنقید کی۔ اس خطبے میں انھوں نے کہا کہ ’اپنی منصوبہ بندی کر لو، ہر ممکن کوشش کر لو، مگر خدا کی قسم، تم ہماری یاد کو نہیں مٹا پاؤ گے، نہ ہی ہمارے پاس موجود وحی کو ختم کر پاؤ گے، اور نہ ہی تم خود پر لگے اِس دھبے کو مٹا سکو گے، تمہاری رائے کی کوئی حیثیت نہیں اور تمہارے دن گنے جا چکے ہیں، جس دن منادی پکارے گا تو تمہارا یہ اجتماع بکھر جائے گا: ظالموں پر خدا کی لعنت ہو۔۔۔‘
سیدہ زینب کی وفات 62 ہجری (681 عیسوی) میں ہوئی۔ مسلمان خصوصاً اہل تشیع فرقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہر سال 15 رجب کو ان کا یومِ وفات مناتے ہیں۔