طالبان خواتین کو انسان نہیں سمجھتے، ملالہ کا مسلم ورلڈ لیگ کانفرنس سے خطاب

اسلام آباد (ڈیلی اردو) نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی کا کہنا ہے کہ طالبان نے خواتین کو افغان معاشرے کے ہر پہلو سے حذف کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ وہ خواتین کو ’انسان نہیں سمجھتے۔‘

اسلام آباد میں لڑکیوں کی تعلیم سے متعلق مسلم ورلڈ لیگ کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ ’افغانستان میں لڑکیوں کی ایک پوری نسل سے ان کا مستقبل چھین لیا گیا۔۔۔ اگر ہم افغان لڑکیوں کی تعلیم پر بات نہیں کرتے تو یہ کانفرنس اپنے مقاصد حاصل نہیں کر پائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ’لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی ہے۔‘

’گذشتہ ساڑھے تین سال کے عرصے میں طالبان نے افغان لڑکیوں سے تعلیم کا حق چھین رکھا ہے۔ انھوں نے ہمارے مذہب کو استعمال کر کے اس کا جواز پیش کیا ہے۔ طالبان روزمرہ زندگی کے ہر شعبے سے لڑکیوں اور خواتین کو حذف کرنا چاہتے ہیں اور انھیں معاشرے سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘

افغانستان میں لاکھوں لڑکیوں کے بغیر نئے تعلیمی سال کا آغاز: ’مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے خواب کسی گڑھے میں دفنا دیے گئے ہوں‘

ملالہ نے کہا کہ طالبان خواتین کے ساتھ اس ظلم پر مذہب اور سماج کا پردہ ڈال دیتے ہیں لیکن ہمیں واضح کر دینا چاہیے کہ ان اقدامات میں ’کچھ بھی اسلامک نہیں۔‘

’یہ پالیسیاں اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں درست نہیں بلکہ یہ ہمارے دین کے خلاف ہیں۔‘

دوسری طرف طالبان نے بارہا کہا ہے کہ سکولوں میں خواتین کو دوبارہ داخل کیا جائے گا جب یہ یقینی ہو جائے کہ نصاب ’اسلامی‘ ہے۔ تاہم ایسا نہیں ہوا ہے۔

اجلاس کے شرکاء سے اپنے خطاب میں 27 سالہ ملالہ یوسفزئی کا کہنا تھا، ”بطور مسلم رہنما، اب وقت آ گیا ہے کہ آپ سب آواز اٹھائیں، اپنی طاقت کا استعمال کریں۔ آپ حقیقی قیادت دکھا سکتے ہیں۔ آپ اسلام کی حقیقی شکل دکھا سکتے ہیں۔‘‘ ملالہ نے مسلم رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ افغان طالبان حکومت کو ”جائز‘‘ نہ قرار دیں اور خواتین اور لڑکیوں کی تعلیم پر طالبان کی لگائی ہوئی پابندیوں کی مخالفت کرکے اپنی حقیقی قیادت کا مظاہرہ کریں۔

دریں اثنا ملالہ نے غزہ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش ظاہر کی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’غزہ میں اسرائیل نے تعلیم کا نظام تباہ کر دیا ہے۔ اس نے تمام یونیورسٹیوں پر بمباری کی، 90 فیصد سکول تباہ کر دیے اور سکولوں کی عمارتوں میں پناہ لینے والے عام شہریوں پر بلاامتیاز فائرنگ کی۔‘

’اسرائیل نے انسانی حقوق کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی۔ فلسطینی بچوں نے اپنی جانیں اور مستقبل کھو دیا ہے۔ ایک فلسطینی لڑکی اس مستقبل کو حاصل نہیں کر سکتی جس کی مستحق ہے، اگر اس کے سکول پر بمباری کر دی جائے اور اس کا خاندان مارا جائے۔‘

’مسلم ممالک میں لڑکیاں مشکل صورتحال سے دوچار ہیں، جیسے یمن، سوڈان اور کئی ملکوں میں جہاں غربت، تشدد اور جبری شادیاں ہوتی ہیں۔‘

لڑکیوں کی تعلیم کے حق سے متعلق اس کانفرنس کا آغاز ہفتے کو ہوا تھا جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف اور مختلف ممالک کے اسکالرز نے بھی خطاب کیا تھا۔

تاہم ان رہنماؤں نے اپنی تقاریر میں افغانستان کے ذکر سے گریز کیا جو دنیا کا واحد مسلم ملک ہے جہاں طالبان کی سخت گیر حکومت نے لڑکیوں پر چھٹی جماعت سے آگے تعلیم پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔

اتوار کو کانفرنس سے خطاب میں ملالہ یوسف زئی نے افغانستان میں طالبان حکومت کے تحت لڑکیوں کی تعلیم اور خواتین کے دیگر حقوق پر پابندیوں پر بات کی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغان طالبان الگ الگ گروپ ہیں لیکن ان کے قریبی روابط اور ایک جیسے نظریات ہیں، جن میں ”لڑکیوں کی تعلیم کو سخت کفر سمجھنا‘‘ بھی شامل ہے۔

اسلام آباد میں ہونے والی اس کانفرنس کا اہتمام حکومتِ پاکستان اور مسلم ورلڈ لیگ کے اشتراک سے کیا گیا ہے۔

اس کانفرنس میں 45 زائد مسلم اور دیگر ممالک کی نمائندگی کرنے والے 150 سے زیادہ مندوبین شریک ہوئے ہیں جن میں وزرا، سفارت کار، اسکالرز اور ماہرینِ تعلیم بھی شامل ہیں۔

منتظمین کے مطابق کانفرنس میں یونیسیف، یونیسکو، ورلڈ بینک اور اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے نمائندے بھی شریک ہوئے ہیں۔

مسلم ورلڈ لیگ یا رابطہ عالم اسلامی سعودی عرب میں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم ہے۔

ملالہ

ملالہ یوسف زئی کو 2012 ء میں اس وقت پاکستانی طالبان نے چہرے پر گولی ماری تھی جب وہ 15 سالہ اسکول کی طالبہ تھیں اور یہ واقعہ ان کی خواتین کی تعلیم کے حقوق کے لیے جاری مہم کے سبب پیش آیا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب اس خطے میں عسکریت پسندی بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی تھی کیونکہ افغانستان میں سرحد پار افغان طالبان اور نیٹو افواج کے درمیان جنگ جاری تھی۔

ملالہ یوسف زئی کو اس حملے کے بعد پاکستان سے برطانیہ منتقل کر دیا گیا تھا اور وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ”عالمی وکیل‘‘ بن گئیں اور 17 سال کی عمر میں انہیں نوبل امن انعام سے بھی نوازا گیا اور وہ دنیا کی سب سے کم عمر نوبل امن انعام یافتہ شخصیت بن گئیں۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں