سعودی عرب کی شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش

ریاض (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/اے پی) مشرق وسطیٰ اور یورپ کے اعلیٰ سفارت کار شام کے ساتھ حمایت و تعاون کے موضوع پر بات چیت کے لیے اتوار کو سعودی دارالحکومت ریاض پہنچ گئے۔ عالمی طاقتیں شام پرعائد پابندیوں میں نرمی اور استحکام کے لیے زور دے رہی ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب، جو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی معیشت ہے، شام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ شام وہ ملک ہے جہاں گزشتہ ماہ باغیوں نے سابق شامی صدر بشارالاسد کا تختہ الٹ دیا تھا۔

ایک سعودی اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے ایک وسیع تر عالمی اجتماع ہو رہا ہے جس میں ترکی، فرانس، یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی شامل ہیں۔

شامی نو منتخب رہنما پابندیاں ختم کروانے کی کوشش میں

شام کے نئے رہنما احمد الشارع، جنہوں نے اسد کا تختہ الٹنے والے اتحاد میں اہم باغی گروپ کی قیادت کی تھی، عالمی برادری پر شام پر عائد پابندیوں میں نرمی کے لیے زور دے رہے ہیں۔ ریاض مذاکرات میں ان کی انتظامیہ کی نمائندگی وزیر خارجہ اسد الشیبانی کر رہے ہیں۔

امریکہ اور یورپی یونین سمیت مغربی طاقتوں نے اسد کی حکومت پر 2011ء میں حکومت مخالف مظاہروں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کریک ڈاؤن کے بعد سے شام میں خانہ جنگی شروع ہو گئی تھی۔

13 سال سے جاری شام کے بحران میں نصف ملین سے زیادہ شامی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ملک کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو گیا ہے اور لوگ انتہائی غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لاکھوں شامی باشندے اپنے گھر بار چھوڑ کر یورپ اور دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے۔

پابندیوں میں نرمی کے اشارے

امریکہ کے محکمہ خزانہ نے گزشتہ پیر کو کہا کہ وہ توانائی اور صفائی جیسی ضروری خدمات کو متاثر کرنے والی پابندیوں کے نفاذ میں آسانی پیدا کرے گا لیکن امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وہ پابندیوں میں کسی وسیع تر نرمی سے پہلے شام کی صورتحال کا جائزہ لینا اور پیش رفت دیکھنے کا انتظار کریں گے۔

یورپی یونین کی خارجہ امور کی نمائندہ اور اعلیٰ سفارت کار کایا کالس نے گزشتہ جمعہ کے روز کہا تھا کہ اگر شام کے نئے حکمران اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے والی ایک جامع حکومت کی تشکیل کے لیے اقدامات کرتے ہیں تو 27 ملکی یورپی بلاک پابندیاں ہٹانا شروع کر سکتا ہے۔

یورپی وزرائے خارجہ اس معاملے پر بات چیت کے لیے 27 جنوری کو ملاقات کرنے والے ہیں۔ کایا کالاس نے اتوار کو ریاض میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ شام پر لگی پابندیوں میں ریلیف کی ممکنہ ترجیحات میں ”وہ پابندیاں شامل ہیں جو کسی ملک کی تعمیر میں رکاوٹ بن رہی ہیں، جیسے کہ بینکنگ خدمات تک رسائی وغیرہ۔‘‘ کایا کالاس نے کہا، ”اگر ہم دیکھتے ہیں کہ پیشرفت درست سمت میں جا رہی ہے تو ہم اگلے اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم انہوں نے یہ بھی کہا کہ ،” فال بیک پوزیشن‘ بھی ہونی چاہیے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ کا بیان

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر باک نے ریاض میں صحافیوں کو بتایا کہ ان کی حکومت ایک ”اسمارٹ اپروچ‘‘ چاہتی ہے جس سے شامیوں تک امداد پہنچ سکے۔ تاہم انہوں نے یہ بھی کہا، ”بشارالاسد کے حواریوں کے، جنہوں نے خانہ جنگی کے دوران سنگین جرائم کا ارتکاب کیا، خلاف پابندیاں برقرار رہنی چاہییں۔ شامیوں کو اب اقتدار کی منتقلی سے فوری طور پر منافع پہنچنا چاہیے۔‘‘

جرمن وزیر خارجہ نے مزید کہا کہ جرمنی شام کو خوراک، ہنگامی صورتحال کے لیے شلٹر اور طبی دیکھ بھال کے لیے مزید 50 ملین یورو کی امداد فراہم کرے گا۔

اقوام متحدہ کے مطابق 10 میں سے سات شامیوں کو مدد کی ضرورت ہے۔

سعودی عرب کے شام کے ساتھ تعلقات

عرب بادشاہت سعودی عرب نے 2012 ء میں اسد کی حکومت کے ساتھ تعلقات منقطع کر لیے تھے اور طویل عرصے سے ان کی اقتدار سے بے دخلی کی کھل کر حمایت کی تھی۔ لیکن 2023 ء میں اس نے عرب لیگ کے اجلاس کی میزبانی کی جس میں اسد کو دوبارہ علاقائی سطح پر خوش آمدید کہا گیا۔ اس ماہ خلیجی ریاست نے شام کو زمینی اور ہوائی جہاز کے ذریعے خوراک، عارضی شلٹرز اور طبی سامان بھیجے۔

ریاض اب بات چیت کر رہا ہے کہ اس جنگ زدہ ملک کی حمایت کیسے کی جائے۔ واشنگٹن میں عرب خلیجی ریاستوں کے انسٹی ٹیوٹ کی نان ریذیڈنٹ فیلو انا جیکبز نے کہا، ”یہ سربراہی اجلاس یہ پیغام دیتا ہے کہ سعودی عرب شام کی بحالی کی حمایت کے لیے علاقائی کوششوں کو مربوط کرنے کی قیادت کرنا چاہتا ہے۔‘‘

تاہم انہوں نے کہا، ”بڑا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اس کوشش کے لیے کتنا وقت اور کتنے وسائل صرف کرے گا؟ اور بہت سی پابندیوں کے باقی رہنے سے کیا مراد ہے؟‘‘

ایک سعودی اہلکار نے کہا کہ اتوار کو ہونے والی ملاقاتیں دراصل اسد کے بعد کے شام کے بارے میں بات چیت کے تسلسل کی نمائندگی کرتی ہیں جن کا آغاز گزشتہ ماہ اردن میں ہوا تھا۔ ان کے بقول،” ان مذاکرات کے بعد، سفارت کاروں نے ، شفاف عمل کے ذریعے ایک جامع، غیر فرقہ وارانہ اور نمائندہ حکومت کی تشکیل‘‘ کے لیے شام میں قیادت کی منتقلی کا مطالبہ کیا تھا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں