کرم میں سکیورٹی فورسز نے شیعہ سنی قبائل کے بنکرز کو دھماکہ خیز مواد سے اڑا دیا

پشاور (ڈیلی اردو/بی بی سی) صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں حالات مسلسل کشیدہ ہیں اور آج مقامی انتظامیہ اور سیکیورٹی فورسز نے مخالف گروہوں کے دو بنکرز مسمار کرنے کا کام شروع کر دیا ہے۔

مقامی انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے ایک ایک بنکر دونوں جانب سے مسمار کیے گئے ہیں ان میں ایک بنکر بالیش خیل اور دوسرا بنکر خار کلی میں مسمار کیا گیا ہے۔

لوئر کرم کے پولیس افسر نے بتایا کہ ایک ایک مورچہ مسمار کر دیا ہے اور باقی مورچے پھر کل مسمار کیے جائیں گے کیونکہ اب کافی اندھیرا ہوگیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگ بنکرز گرانے کے حق میں نہیں تھے لیکن کوئی بڑی مخالفت سامنے نہیں آئی۔

ضلع کرم سے منتخب رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ ایک ایک بنکر دونوں جانب سے تباہ کیے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ علاقے لوئر کرم میں تحصیل صدہ کے قریب واقع ہیں۔ بالیش خیل اہل تشیع اور خار کلی اہل سنت کے علاقے ہیں۔

مقامی صحافی علی افضل نے بتایا کہ آج صبح سے ہی سیکیورٹی فورسز اور انتظامیہ کے اہلکار بھاری مشینری اور ایکسویٹرز کے ساتھ علاقے میں پہنچ گئے تھے۔ علاقے میں ہیلی کاپٹر بھی فضائی نگرانی کے لیے موجود تھے۔

اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ دوپہر کے وقت رابطہ ہوا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ جرگے میں مصروف ہیں ابھی بات نہیں کر سکتے۔

رکن قومی اسمبلی حمید حسین نے کہا کہ اگرچہ بنکرز مسمار کر دیے گئے ہیں لیکن علاقے میں حالات تاحال کشیدہ ہیں اور اب ایسا لگتا ہے کہ لوگ بھوک سے مرنا شروع ہو جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ راستہ مسلسل بند ہے اور کھانے پینے کی اشیا کے علاوہ ادویات ، پیٹرول اور دیگر ضروری اشیا کی شدید قلت پائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ متعلقہ حکام کی جانب سے تسلیاں دی جا رہی ہیں اور ذرائع ابلاغ سے پیغام دیا جا رہا ہے کہ حالات ٹھیک ہیں، لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ یہاں لوگوں کے پاس کھانے پینے کی اشیا کی سخت قلت ہے۔

ضلع کرم میں بنکرز مسمار کرنے کے لیے ڈپٹی کمشنر کرم کی جانب سے ایک خط سنیچر کے روز جاری کیا گیا تھا جس میں لوئر اور لوئر سنٹرل کرم کے سی اینڈ ڈبلیو کے حکام سے کہا گیا تھا کہ 12 جنوری کو بلیش خیل اور خار کلی میں بنکرز مسمار کرنے کے لیے تمام اقدامات کیے جائیں۔

اس خط میں کہا گیا تھا کہ تمام ضروری مشینری کا انتطام کریں اوروہ خود اور ان کے ساتھ عملے کے دس افراد بھی موقع پر موجود ہوں۔

گذشتہ روز اس پر عمل درآمد نہیں ہو سکا لیکن آج پیر کو شام سے تھوڑی دیر پہلے بنکرز مسمار کرنے کی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔

ضدہ سے ایک مقامی ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ایک یہ ایک مثبت کام شروع ہوا ہے لیکن اس علاقے میں صرف یہ ایک یا دو بنکرز نہیں ہیں بلکہ بے شمار بنکرز ہیں اور مقامی قبائل بنکرز مسمار کرنے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ بنکرز ان کی حفاظت کے لیے ضروری ہیں۔ دوسری جانب قبائلی کے درمیان حالات کشیدہ ہونے پر پھر انھی بنکرز سے مخالف دھڑوں پر ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی جاتی ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں