واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کی کوششوں میں اہم پیش رفت ہوئی اور ثالثی کرنے والوں نے فریقین کو معاہدے کا مسودہ دے دیا ہے۔
پیر کو اس پیش رفت سے آگاہ حکام نے نے بتایا ہے کہ مجوزہ مسودے میں ایک فریم ورک دیا گیا ہے جس میں جنگ بندی، حماس کے پاس تاحال موجود یرغمالوں کی بازیابی، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے لیے امداد میں اضافے کے نکات شامل ہیں۔
اس معاہدے کے لیے امریکہ، مصر اور قطر نے کئی ماہ سے گفت و شنید اور بات چیت کا سلسلہ شروع کر رکھا تھا جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہی تھی۔ تاہم حالیہ ہفتوں میں امریکہ میں قیادت کی تبدیلی سے قبل ان کوششوں میں تیزی آ گئی تھی۔
اتوار کو صدر جو بائیڈن کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے سی این این کے شو ’’اسٹیٹ آف یونین‘‘ میں کہا تھا کہ فریقین معاہدے کے ’’بہت نزدیک‘‘ پہنچ چکے ہیں جس کے نتیجے میں 15 ماہ سے غزہ میں جاری جنگ رکے گی اور باقی 98 یرغمالوں کی رہائی ہو گی جن کے بارے میں خیال ہے کہ ان کی دو تہائی تعداد زندہ ہے۔
سلیوان کا کہنا تھا کہ ہم پُرعزم ہیں کہ اپنے ذمے داریوں کے باقی بچے ایک ایک دن کو یہ معاہدہ کرانے میں صرف کر دیں گے اور کسی صورت اسے طول پکڑنے نہیں دیں گے۔
اتوار کو صدر بائیڈن نے جنگ بندی پر مذاکرات سے متعلق اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے بات چیت کی تھی۔
بعدازاں اتوار کو وائٹ ہاؤس سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ دونوں رہنماؤں نے گزشتہ برس اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے متفقہ طور پر منظور شدہ فریم ورک کے تحت جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی پر بات چیت کی۔
بیان کے مطابق صدر بائیڈن نے کہا کہ لبنان میں جنگ بندی، شام میں اسد حکومت کا خاتمہ اور ایران کی کمزور ہوتی قوت کے باعث خطے کے حالات تبدیل ہو گئے ہیں۔
انہوں نے زور دیا کہ غزہ میں فوری طور پر جنگ بندی اور یرغمالوں کی واپسی ہونی چاہیے۔
وائٹ ہاؤس کے مطابق نیتن یاہو نے صدر بائیڈن کی ’’اسرائیل کے لیے زندگی بھر جاری رہنے والی حمایت اور اسرائیل کے تحفظ اور قومی دفاع کے لیے امریکی حمایت پر‘‘ ان کا شکریہ ادا کیا۔
سلیوان نے کہا ہے کہ اس بات کہ امکانات موجود ہیں کہ 20 جنوری کو صدر بائیڈن کی سبک دوشی سے قبل ہی معاہدہ ہو جائے تاہم پورے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کیوں کہ ان کے بقول حماس معاہدے کے بارے میں ابھی تک زیادہ لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اسرائیل نے سات اکتوبر 2023 کو حماس کے جنگجوؤں کی جانب سے کیے گئے حملے کے بعد غزہ پر حملوں کا آغاز کیا تھا۔
حماس کے حملے میں اسرائیل 1200 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور 250 اسرائیلیوں کو یرغمال بنایا گیا تھا۔
اس کے بعد سے اب تک غزہ میں لگ بھگ ساڑھے 46 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور فلسطینی صحت کے حکام کے مطابق ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
تاہم اسرائیل کا کہنا کہ غزہ میں اموات کی تعداد میں حماس کے جنگجوؤں کی تعداد بھی شامل ہے۔
بحیرۂ روم کے کنارے واقع غزہ کی پٹی کی اکثر عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں اور اس کی 23 لاکھ سے زائد آبادی ایک سے زائد بار غزہ کے اندر ہی نقل مکانی کر چکی ہے۔
ہفتے کو نیتن یاہو کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں کے مطابق اسرائیل کی خفیہ ادارے موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ برنیا، داخلی سیکیورٹی کے ادارے شن بیت اور یرغمالوں سے متعلق فوج کے نمائندے نتزا الون نے مذاکرات کے لیے دوحہ کا دورہ کیا ہے۔
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقِ وسطیٰ کے لیے نامزد ایلچی اسٹیو مٹکوف نے جمعے کو قطری وزیرِ اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی سے ملاقات کے بعد ہفتے کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بینجمن نیتن یاہو سے بھی ملاقات کی تھی۔
تاحال یہ بات واضح نہیں ہے کہ حماس اور اسرائیل کے درمیان مذکرات میں رکاوٹ بننا والا سب سے بڑا اختلاف کیسے دور کیا جائے گا۔
حماس کا مطالبہ رہا ہے کہ جنگ فوری طور پر ختم کی جائے جب کہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ سے حماس کی حکومت اور اسرائیلیوں کے لیے کسی بھی ممکنہ خطرے کے مکمل خاتمے تک لڑائی مستقل طور پر نہیں روکی جائے گی۔